فاطمہ بھٹو
سرمد کھوسٹ جنوبی کوریا کے شہر بسان میں صبح صبح سگریٹ کا کش لگا رہے تھے کہ انہیں ایس ایم ایس موصول ہوا۔ پاکستانی اداکار اور ہدایتکار سرمد کھوسٹ بسان اپنی دوسری فلم ’زندگی تماشہ‘ کے ورلڈ پریمئیر کے لئے گئے تھے۔ جنوبی کوریا میں تمباکو نوشی بارے سخت قوانین کے پیش ِنظر انہوں نے کش لگانے کے لئے ایک کونہ بڑی مشکل سے ڈھونڈا تھا۔ انہیں ایس ایم ایس پاکستان کے مرکزی فلم سنسر بورڈ کی جانب سے موصول ہوا تھا۔
دیگر بہت سے ممالک کے برعکس، پاکستان میں تین فلم سنسر بورڈ ہیں۔ تینوں اپنی اپنی علاقائی حدود میں فلموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گو پاکستان کی فلمی صنعت نے پچاس کی دہائی میں جنم لیا لیکن پاکستان ملکی و عالمی سطح پر اپنے ٹیلی وژن ڈراموں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اپنے اچھے سکرپٹ کے لئے مشہور پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامے اور سیریل خاندانی مسائل اور معاشرتی تضاد کو مہارت کے ساتھ پیش کرنے کے لئے مشہور ہیں۔
فلمی صنعت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے نجی ٹیل ویژن چینلوں اور کچھ آزادانہ طور پر کام کرنے والے لوگوں نے کوشش کی ہے۔ حتیٰ کہ پاکستانی فوج نے بھی کچھ فلموں میں سرمایہ کاری کی ہے اور ایکشن سے بھرپور یہ فلمیں جارحانہ حب الوطنی کے پیغام سے لیس ہوتی ہیں۔
پاکستان اپنی سوفٹ پاور سے ہو سکتا ہے اچھے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہو مگر ملک کے سنسر بورڈ فلمی کاروبار کے حق میں اچھے نہیں۔ جب می ٹو تحریک اپنے عروج پر تھی، عین اس وقت سنسر بورڈ نے ’ورنہ‘ پر پابندی لگا دی۔ یہ فلم ریپ کا شکار ہونے والی ایک عورت کی تھی۔ سنسر بورڈ کے خیال میں فلم میں قابل ِاعتراض مناظر تھے۔ پابندی ہٹا تو لی گئی مگر عوامی رد عمل کے بعد۔
اس واقعہ کے باوجود سرمد کھوسٹ پریشان نہیں تھے کیونکہ ان کی فلم کو تو تینوں سنسر بورڈ پاس کر چکے تھے۔ پنجاب فلم سنسر بورڈ نے تو اسے یو ریٹنگ کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ سنسر سے منظوری کے بعد وہ فلم کو ریلیز کرنے کی تیاری میں تھے۔ ریلیز سے عین پہلے انہیں پیغام ملا کہ فلم کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہے۔
شکایت کی بنیاد فلم کا ٹریلر تھا اور شکایت کنندہ تھی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی): دائیں بازو کی ایک مذہبی بنیاد پرست جماعت۔
ٹی ایل پی نے پہلے تو الزام لگایا کہ فلم میں مذہب کی توہین کی گئی ہے۔ بعد ازاں وہ اس خطرناک الزام سے تھوڑا پیچھے ہٹ گئے اور الزام لگایا کہ فلم میں علماء کی توہین کی گئی ہے (حالانکہ ایسا اس فلم میں کچھ نہیں ہے)۔ ٹی ایل پی کا مزید کہنا تھا کہ فلم انارکی، بد امنی اور فرقہ واریت کا پیغام پھیلا رہی ہے۔
’آپ بہت مشکل میں پڑنے والے ہیں‘ ایک انسپکٹر نے سرمد کھوسٹ کو بتایا۔
سرمد کھوسٹ بسان میں ایک اہم انعام جیتنے کے بعد جب ملک واپس پہنچے تو ٹی ایل پی ملک میں ’زندگی تماشہ‘ کے سوال پر طوفان برپا کر چکی تھی۔ اگلے ایک سال تک سرمد کھوسٹ کو دھمکیاں ملتی رہیں، ان کو ہراساں کیا گیا۔ ان کے خلاف شر انگیز مہم چلائی گئی۔
یہ فلم پاکستانی سینیٹرز کی ایک کمیٹی کو دکھائی گئی۔ اس کمیٹی نے سفارش کی کہ فلم کوریلیز کیا جائے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض مواد نہیں۔ اس کے باوجود فلم کو سینما سرکٹ میں ریلیز کرنے کے لئے ضابطے کی کاروائی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی۔ ایک ویڈیو کال میں سرمد کھوسٹ نے بتایا: ’زندگی تماشہ سے پہلے پورے ملک میں ان سے بطور اسکرین سٹار پیار کیا جاتا تھا مگر پھر موت کی دھمکیاں ملنے لگیں‘۔
سرمد کھوسٹ کے والد معروف اداکار اور کامیڈین ہیں۔ ان کے بھائی ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ ایک وقت تھا وہ پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بہت مقبول تھے۔ 2016ء میں انہیں، ٹیلی ویژن اور فلم کے لئے ان کی خدمات کے صلے میں، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔
چوبیس گھنٹے طویل ’نو ٹائم ٹو سلیپ‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے پر انہیں دنیا بھر میں پہچان ملی۔ اس ڈرامے میں انہوں نے ایک ایسے قیدی کا کردار ادا کیا جسے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ 2016ء یہ کھیل پھانسیوں کے خلاف عالمی دن کے موقع پر پیش کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ’زندگی تماشہ‘کو پاکستان نے آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا ہے۔
اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ فلم آسکر کے لئے شارٹ لسٹ ہو جائے۔ یہ ایک سنجیدہ فلم ہے جو شرم، مردانگی اور سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار، ایک مضبوط جسم والا پنجابی، راحت ہے جو محلے میں اپنی نعت خوانی کی وجہ سے مشہور ہے اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دن کوئی شخص زندگی تماشہ گانے پرڈانس کرتے ہوئے ویڈیو بنا لیتا ہے۔ راحت نے کبھی کوئی فحش اور گھٹیا حرکت نہیں کی۔
لمحے بھر کے لئے وہ ایک گیت پر بے ہنگم سا رقص کر لیتا ہے اور اپنی بیمار اور غصیلی بیوی کا خیال رکھنے والے بوڑھے شخص کی بجائے ایک بے فکر نوجوان بن جاتا ہے جو گیت اور موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
یہ ویڈیو لیک ہو جاتی ہے اور راحت کی چھوٹی سی دنیا میں زلزلہ آ جاتا ہے۔ کچھ لوگ تو راحت کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں لیکن کچھ اس کا حقہ پانی بند کر دیتے ہیں اور اسے عید میلادلانبی پر نعت پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی حالانکہ وہ نوجوانی کے دنوں سے اس موقع پر نعتیں پڑھتا آ رہا ہے۔
سرمد کھوسٹ کو اس فلم کا خیال ایک سچے واقعہ کے بعد آیا۔ ہوا یوں کہ ایک باریش شخص کی ویڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہو گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ پنجابی فلم کے ایک گانے کی دھن پر ناچ رہا ہے۔ رقص کرنے والے ان مولوی صاحب کو اپنے اس ڈانس پر معافی مانگنی پڑی۔ سرمد کھوسٹ کا خیال تھا کہ ان کی فلم کچھ مشکل سوالات اٹھائے گی۔
ان کا کہنا ہے اس فلم میں اپنے اٹھارہ سالہ تجربے کو جھونک دیا۔ ’میں کوئی سنسنی خیز فلم نہیں بنانا چاہتا تھا۔ ڈرامائی قسم کے مناظر شامل ہی نہیں کئے گئے‘۔ فلم پر انہوں نے خود سرمایہ کاری کی۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر، فلمبندی کے دوران انہوں نے سکرپٹ کو خفیہ رکھا۔ کچھ مناظر کی فلم بندی کے دوران سکرپٹ، شائع شدہ شکل میں، لانے کی اجازت نہیں تھی۔
ہماری گفتگو کے دوران وہ بار بار ’نازک معاملہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ آئیے نزاکت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ فلم نزاکت سے بھر پور ہے۔ فلم حقیقی لوکیشن پر عکس بند کی گئی ہے۔ عید میلادالنبی کی تقریبات حقیقی ہیں۔ یہ مناظر 2018 ء میں فلم بند کئے گئے۔ مناظر بلندی سے فلمبند کئے گئے ہیں اور روشنیوں سے منور چھتریوں تلے، گرد آلود گلیوں میں چلتے ہوئے جلوس دکھائے گئے ہیں۔ بیک وقت لوگوں کا جوش و خروش بھی دیکھا جا سکتا ہے اور ڈی وی ڈی بیچنے والوں کی خالی دکانیں بھی۔ ٹرانس جینڈر افراد اور بوڑھے لوگوں کی سر عام گزرنے والی خفیہ زندگی بھی نظر تی ہے۔
جس گانے پر فلم کا نام رکھا گیا ہے، یہ گانا ہر اس منظر میں بجتا ہے جب کوئی راحت کا ویڈیو کلپ دیکھتا ہے۔ اس طرح ایک دوہرا افیکٹ(Effect) پڑتا ہے: راحت کی خوشی بھی ذہن میں آتی ہے اور اس کا انجام بھی۔
’زندگی تماشہ‘ برصغیر میں بنائی جانے والی چند نفیس ترین فلموں میں سے ایک ہے جس میں برصغیر کے غریب محلوں کی زندگی کی نازک تفصیلات پیش کی گئی ہیں: ایک منظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک آدمی ہسپتال کے فرش پر لیٹا ہے اور اس نے اپنے اوپر گھر سے لایا ہوا کمبل تان رکھا ہے۔ خالی خولی ہنسی کے ساتھ ٹی وی میزبان کسی عطائی سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا کیلا ہاضمے کے لئے اچھا ہے۔لوگ مرغ مسلم کو اخبار میں لپیٹ کر پلاسٹک لفافے میں ڈال کر گھر لے جا رہے ہیں۔
سرمد کھوسٹ کو لمبا عرصہ موت کی دھمکیاں ملتی رہیں۔ ان کا فون نمبر کسی نے لیک کر دیا۔ انہیں کٹے ہوئے سر والی تصاویر بھیجی جاتی رہیں۔ انہوں نے سرکار کو خط لکھے۔ ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی سوچا کہ اپنی فلم کے کردار راحت کی طرح وہ بھی ایک ویڈیو بنا کر معافی مانگیں۔ ٹی ایل پی کے رہنما خادم رضوی نے دھمکی دے رکھی تھی کہ فلم ان کی لاش پر گزر کر ہی ریلیز ہو سکے گی (ان کا نومبر میں انتقال ہو گیا اور ان کے انتقال پر ان کے سیاسی اتحادی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ٹوئٹر پر اظہار تعزیت کیا گیا)۔
ایک موقع پر یہ تجویز بھی آئی کہ چند ملاں حضرات فلم دیکھ کر اس کا فیصلہ کریں۔ سرمد کھوسٹ کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے ’میں اس کے لئے تیار تھا مگر ایسا ہوا نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستانی ناظرین اس فلم سے محروم نہ رہیں کیونکہ یہ فلم یہاں کا دل رکھنے والے نے یہاں کے لوگوں کے لئے بنائی تھی‘۔
میں نے جب ان سے بات کی تو وہ اپنی نئی فلم پر کام کر رہے تھے۔ پوسٹ پراڈکشن کے مرحلے میں اس فلم کی سیٹ پر وہ شام گئے مصروف رہتے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے اس سال آسکر کے قوانین میں نرمی کر دی گئی ہے۔ جو فلمیں آن لائن ریلیز ہوئیں، انہیں بھی نامزد کیا جا سکتا ہے۔ ’زندگی تماشہ‘ ہفتے بھر کے لئے ویمو پر پیش کی گئی۔ اسے صرف پاکستان میں دیکھا جا سکتا تھا۔ ماحول ایسا بنا ہوا تھا کہ یہ سلسلہ ہفتہ بھر ہی چلا۔ اس فلم کو ابھی پاکستانی سینما گھروں میں دکھانے کی اجازت نہیں ملی گو اسے بڑے سنسر بورڈ اور سینیٹرز کی کمیٹی نے پاس کر دیا ہے۔
پریشانی کا شکار سرمد کھوسٹ ٹینیٹس کا شکار ہو گئے ہیں: ان کے بائیں کان میں سنائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود وہ پر امید ہیں۔ ٹھوڑی ہاتھ میں تھامے وہ کیمرے کی مدہم روشنی میں مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’جہاں کام کا تھوڑا بہت موقع مل رہا ہے، میں کر رہا ہوں‘۔