سماجی مسائل

روزمرہ کے مسائل: موٹر سائیکل سواروں کا ہیلمٹ نہ پہننا

فاروق سلہریا

پچھلے سال پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت بر سرِ اقتدار آئی تو کم از کم لاہور کی حد تک ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا۔ اس کے دو نتیجے نکلے۔ ایک تو یہ کہ پولیس والوں کو عیدی بنانے کا ایک نیا بہانہ مل گیا۔ دوسرا یہ کہ موٹر سائیکل سواروں نے کافی حد تک ہیلمٹ پہننا شروع کر دیا۔

تاہم ماضی میں بھی مختلف حکومتیں ایسی مہمات چلاتی رہی ہیں جن کے نتائج وقتی ہی رہے ہیں۔ جونہی ’سختی‘ کچھ کم ہوتی ہے لوگ دوبارہ ہیلمٹ کا استعمال ترک کر دیتے ہیں۔

مزید بات کرنے سے پہلے ہیلمٹ کے حوالے سے ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ موٹر سائیکل چلانے والے پر تو ہیلمٹ کی پابندی کروانے پر گاہے بگاہے سختی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں موٹر سائیکل پر محنت کش طبقے کے افراد عموماً بیوی بچوں سمیت سوار ہو تے ہیں۔ اسی طرح نوجوان اور طالب علم بھی عموماً ڈبل سواری بلکہ ٹرپل سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیلمٹ جس قدر موٹر سائیکل چلانے والے کے لئے اہم ہے اتنا ہی اہم ہر اُس فرد کے لئے بھی جو موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھا ہے۔

جب حکومت نے پچھلے سال ہیلمٹ کے مسئلے پر سختی شروع کی تو ایک مرتبہ پھر پاکستانی سماج کی پسماندگی اور بوسیدگی کھل کر سامنے آنے لگی۔ ایک عمومی منظر تو یہ تھا کہ لوگوں نے ہیلمٹ موٹر سائیکل کے ہینڈل یا اسٹینڈ کے ساتھ لٹکا رکھا ہے مگر پہنا نہیں ہوا۔ مقصد یہ کہ اگر کہیں پولیس کا ناکہ دکھائی دے تو چالان سے بچنے کے لئے فوراً ہیلمٹ پہن لیا جائے۔ گویا جان بچانا اہم نہیں‘ چالان سے بچنا اہم ہے۔

تعمیراتی ہیلمٹ کا موٹر سائیکل پر استعمال

اسی طرح ایک اور رجحان دیکھنے میں آیا۔ بعض لوگوں نے تعمیراتی کام کے دوران استعمال ہونے والے ہیلمٹ پہننا شروع کر دئیے۔ اسکی ایک مثال تو زیرِ نظر تصویر ہے جو میں نے پچھلے سال لاہور کے کینال روڈ پر کھینچی تھی۔ غالباً یہ ہیلمٹ سستے تھے یا بعض افراد کو دوستوں اوررشتہ داروں سے مفت میں بھی مل گئے ہوں گے۔ اس سارے رجحان سے ایک بات پھر واضح ہو رہی تھی کہ چالان سے بچنا اہم ہے‘ اپنی جان کی حفاظت کرنا اہم نہیں۔

تاہم جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہر حکومت کی طرح چند مہینوں کے بعد موجودہ حکومت نے بھی لوگوں کو ہیلمٹ پہنانے کی مہم بھلا دی۔ اس سے قبل یہ مہم پرویزالٰہی کی صوبائی حکومت نے شروع کی تھی۔ اُن دنوں بھی مذکورہ بالا رجحانات دیکھنے میں آئے اور مسلم لیگ نواز کے حامی سیاستدان اور کالم نگار تو یہ پراپیگنڈہ کرتے بھی دکھائی دئیے کہ پرویز الٰہی کے کسی عزیز نے ہیلمٹ کی فیکٹری لگائی ہے اور موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہنوانے کا مقصد اس فیکٹری مالک کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہو مگر اہم بات تو یہ ہے کہ موٹر سائیکل سوار کو اپنی حفاظت کے لئے ہیلمٹ پہننا چاہئے۔

ایسا کیوں ہے کہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں تیسری دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک میں بھی مغرب کی جدید ترین گاڑیاں تو آ جاتی ہیں مگر مغرب والی ٹریفک سینس (Sense)ناپید ہے؟

ہیلمٹ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں جاپان، کوریا، چین اور اگر جیب میں زیادہ پیسے ہیں تو مغرب سے بھی ہیوی بائیک آ جاتے ہیں مگر یہ شعور نہیں آ تا کہ موٹر سائیکل پر سواری کرنے والے افراد کو ہیلمٹ پہننا چاہئے۔

وجہ اسکی سادہ سی ہے۔ تیسری دنیا کے حکمران بدعنوان اور گماشتہ سرمایہ دار ہیں جوگاڑیوں کے تاجر بن کر روپیہ تو بٹور رہے ہیں مگر ٹریفک منظم کرنے اور ٹریفک سینس پیدا کرنے کے لئے جس شعور کو اجاگر کرنے یا انفرا سٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے‘ اس پر پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب محنت کش طبقے کی تنظیمیں بھی کمزور ہیں۔ مغرب میں ایسے سماجی مسائل پر ٹریڈ یونین تحریکوں اور مزدوروں کی سیاسی جماعتوں نے محنت کشوں میں شعور بیدار کیا اور اکثریت کے ثقافتی معیار کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

با الفاظِ دیگر ہیلمٹ کا عدم استعمال بظاہر معمولی سی بات ہے مگر یہ پاکستانی سماج کے ریاستی و معاشرتی سطح پر بوسیدہ اور زوال پذیر ہونے کی ایک مثال ہے۔ ایک طرف عوام ہیں جو اپنی ہی جان بچانے کے لئے چند سو روپے خرچ کرنے پر تیار نہیں۔ اگر کسی دوست یا گھر کے فرد کو ہیلمٹ نہ پہننے کے خلاف تنبیہ کریں تو سب کچھ خدا پر ڈال دیتے ہیں۔ دوسری طرف حکمران ہیں جو عوام کو شعور اورحقیقی معنوں میں نیا پاکستان تو نہیں دے سکتے مگر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے گاہے بگاہے ہیلمٹ جیسے مسائل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کسی وزیرِ اعلیٰ کے کسی سرمایہ دار دوست کی ہیلمٹ بنانے والی فیکٹری کا بھلا ہو جائے تو سونے پر سہاگہ!

اس کالم کے قارئین سے ہماری درخواست یہ ہے کہ اگر آپ موٹر سائیکل چلاتے ہیں تو ہیلمٹ کا استعمال کریں۔ حکومت اس معاملے میں سختی کرے نہ کرے‘ موسم گرمی کا ہو یا سردی کا‘ موٹر سائیکل حفاظت سے چلانے کے لئے ہیلمٹ پہننا بنیادی شرط ہے۔


ہمارا ”روزمرہ کے مسائل“ کا سلسلہ بالکل مختصر مضامین پر مشتمل ہو گا جس میں آپ بھی کسی سماجی مسئلے اور اس کی وجوہات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اپنی تحریریں یا آرا ہمیں یہاں ارسال کریں۔


Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔