حارث قدیر
پاکستان اور بھارت کی افواج نے جمعرات کے روزایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ حالیہ مہینوں میں سابق شاہی ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کرنے والی ’لائن آف کنٹرول‘ (ایل او سی)کے مختلف سیکٹرز پر فائرنگ کے مختلف واقعات کا تدارک کرنے کےلئے جنگ بندی پر سختی سے عملدرآمد کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک نے 2003ءمیں ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کئے تھے لیکن حالیہ برسوں میں ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ماضی کی طرح ایل او سی کے قریب موجود دیہاتوں میں ہلاکتوں، املاک کے نقصان اور فوجی نقصان میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں فریقین کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری اوپریشنز نے ایل او سی کے تمام مقامات پر 24 اور 25 فروری کی درمیانی رات سے تمام معاہدوں کی پاسداری اور جنگ بندی پر سختی سے عملدرآمد پر اتفاق کیا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ”سرحدوں کے باہمی مفادات اور پائیدار امن کے حصول کےلئے دونوں ڈی جی ایم اوز نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور خدشات کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو امن کو خراب کرنے اور تشدد کا باعث بننے کی وجہ بنتے تھے۔“
واضح رہے کہ ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے پر چند سال ہی عملدرآمد کیا جا سکا تھا، 2008ءسے دوبارہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات کا آغازہو گیا تھا، تاہم ان خلاف ورزیوں میں نمایاں اضافہ 2014ءمیں ہوا جس کے نتیجے میں 300 کے قریب شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے ذرائع نے رواں سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران جنگ بندی کی 253 خلاف ورزیوں میں 8 شہریوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا۔ جبکہ بھارت نے رواں سال کے آغاز سے ہی پاکستان کی جانب سے 591 خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی فوج پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں اور سول آبادی کو ٹارگٹ بنا نے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جبکہ بھارت پاکستان پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتا ہے اور اس کی وجہ عسکریت پسندوں کو کنٹرول لائن کی دوسری طرف بھیجنے اور بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں عسکری کارروائیوں کی پشت پناہی قرار دیتا ہے۔
جموں کشمیر گزشتہ 73 سال سے ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعہ کا بنیادی نقطہ رہا ہے۔ دونوں ممالک اس خطے پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں اور مخصوص حصوں پر قابض بھی ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019ءمیں اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی داخلی خودمختاری کو ختم کر کے اسے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد پاک بھارت کے درمیان تناﺅ ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے مابین جنگ بندی کے اس معاہدے پر اسی روز عمل درآمد شروع ہو رہا ہے جب بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے میں بمباری کی تھی۔ بھارت نے کالعدم عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے ایک تربیتی کیمپ کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔ 27 فروری 2019ءکو پاکستانی فضائیہ کی ایک کارروائی میں بھارتی طیارہ مار گرانے اور بھارتی پائلٹ کو گرفتار کرنے جیسا عمل کیا گیا تھا، تاہم دو روز بعد گرفتار بھارتی پائلٹ کو بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
رواں ماہ 27 فروری کو پاکستانی فضائیہ کے اس کارنامے کو یاد کرنے کےلئے بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ بھارت کو فتح کرنے، مسئلہ کشمیر کو جہاد کے ذریعے حل کرنے کے اعلانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کو سختی سے یقینی بنائے جانے پر اتفاق ہوا ہے اور ساتھ ہی دونوں ممالک کے مفادات کے حصول اور خدشات کو دور کرنے کےلئے مل جل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں اقدامات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکمران طبقات کی دشمنیاں اور دوستیاں سطحی اور جعلی ہوتی ہیں۔ دونوں کا انحصار حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ اور نظام حکمرانی کو جاری رکھنے کی ضرورتوں پر ہی ہوتا ہے۔
جموں کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 73 سال سے ایک ایسے رستے زخم کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ جب بھی دونوں ریاستوں کے داخلی تضادات بڑھتے ہیں تو اس رستے ہوئے زخم کو کریدنا شروع کر دیا جاتا ہے تاکہ دیگر تمام زخموں پر اس تکلیف کو حاوی کر دیا جائے اور داخلی تضادات سے توجہ ہٹ جائے۔ حکمرانوں کے مفادات کے تحت ہی اس زخم پر مرہم پٹی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جاتا ہے۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تجارت اور آر پار سفر کی سہولیات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ کشیدگی کا دور ہو یا امن کا دور ہو ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کا سلسلہ دونوں ملکوں کے حکمران طبقات اور فوجی اشرافیہ کے مابین مسلسل جاری رہتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمران طبقات سرمایہ دارانہ نظام کی بقا، اس خطے کے محنت کشوں کے استحصال کے سلسلے کو جاری رکھنے اور طوالت دینے کے عمل میں باہم متفق اور متحد ہیں۔
کشیدگی کا دور ہو یا امن کا دور ہو جموں کشمیر کے باسیوں کی زندگیوں میں کوئی پل بھی خوشی اور راحت کا نہیں رہا۔ محکومی، لا علاجی، بھوک، ننگ، جہالت، بیروزگاری اور استحصال اس خطے کے باسیوں کا مقدر بن چکا ہے۔ ایک طرف وحشت کو پالنے میں اس خطے کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیاجا رہا ہے اور دوسری طرف وحشت اور فوجی جبر کا ننگا راج ہے، اس خطے کے باسیوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
جنگ بندی کا موجودہ معاہدہ ایک اور خدشے کو بھی تقویت بخشنے کا باعث بن رہا ہے، جس میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مسئلہ جموں کشمیر کے دائمی حل کےلئے ایل او سی کو مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کئے جانے پر بیک ڈور اتفا ق ہو چکا ہے اور اس منصوبے پرمرحلہ وار عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ مہاجرین جموں کشمیر 1989ءکی مستقل آبادکاری، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر و گلگت بلتستان کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دیئے جانے کےلئے اقدامات کی بازگشت کو بھی اسی منصوبے کا حصہ قرار دیاجا رہا ہے۔
جنگ کا دور ہو، امن کا دورہو، تنازعات کی شدت ہو یا حکمرانوں کی تنازعات کو حل کرنے سے متعلق کوئی پیش رفت و سامراجی مداخلت ہو، یہ سب اقدامات محض اس نظام کو جاری رکھنے، براہ راست اور بالواسطہ قبضے اور استحصال کا دوام بخشنے کے ہی مختلف طریقہ ہائے کار ہوتے ہیں جنہیں حکمران طبقات شاطرانہ سفارتی لفاظی میں لپیٹ کر میڈیا کی زینت بناتے ہیں لیکن محنت کشوں کی تقدیر بدلنے کےلئے کوئی اقدام نہ تو کیا جاتا ہے اور نہ ہی کیا جانا مقصود ہوتا ہے۔ اس ڈھونگ اور کھلواڑ میں مقامی حکمران اشرافیہ بھی سامراجی حکمرانوں کے اشاروں پر ناچنے اور اپنی نوکری برقرار رکھنے یا حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہی مصروف رہتی ہے۔ اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا مسیحا اور انکے دکھوں کا مداوا کرنے والا ’خود ان‘ کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ محنت کشوں کا اتحاد اور سرمایہ دارانہ نظام اور اسکے سامراجی کھلواڑ کے خلاف فیصلہ کن جنگ کےلئے تاریخ کے میدان میں اترنا ہی راہ نجات ثابت ہو سکتا ہے۔