سوچ بچار

کیا دو کنال کے گھر میں رہنا غداری نہیں

فاروق سلہریا

میں کرائے کے جس مکان میں رہتا ہوں وہ لاہور کے متمول علاقے ای ایم ای میں واقع ہے۔ ٹھوکر نیاز بیگ سے مغرب کی جانب پچھلے تیس سال میں جو آبادیاں بنیں یہ ان میں سے ایک ہے۔

صرف تیس سال پہلے آبادی اور کنسٹرکشن کا یہ بھداجنگل نہیں تھا۔ یہاں سر سبر لہلہاتے کھیت تھے۔ بہت سے درخت تھے۔ ایسے درخت جن پر پرندے گھونسلے بناتے تھے۔

ضیا آمریت، اس کی باقیات اور بعد ازاں مشرف آمریت اور اس کی باقیات نے جس بلیک اکانومی کو فروغ دیا، جسے نیو لبرلزم کا تڑکا بھی لگ گیا، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اشرافیہ اور مڈل کلاس کو دین اور وطن سے تو بہت محبت ہے مگر دیرپا ترقی، ملک کی معیشت سے محنت کش کا بھی فائدہ ہو، ماحولیات اور کسان سے کوئی دلچسپی نہیں۔

ای ایم ای اس کی ایک شرمناک مثال ہے۔

آج صبح میں جاگنگ کرنے گھر سے نکلا تو روز کی طرح میں نے دیکھا ہر دوسرے گھر کے باہر ’نوکر‘ گاڑی دھو رہا تھا، مالی درختوں اور پودوں کو دھو رہا تھا۔ جی ہاں پانی نہیں دے رہا تھا، دھو رہا تھا۔ اکثر کوٹھیوں کے سامنے ایسے پودے ہیں جن کا نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ ان پر پرندے گھونسلہ بناتے ہیں۔

ای ایم ای کی انتظامیہ نے بھی ایسے ہی درخت لگائے ہیں جہاں پرندے گھونسلے نہیں بناتے۔ مجھے تو ان درختوں اور پودوں کے نام بھی نہیں آتے جو یہاں لگائے گئے ہیں۔ ان کا مقصد بھی سمجھ میں نہیں آتا۔

صرف درخت اور گاڑی ہی نہیں دھوئے جاتے۔ گیٹ کے سامنے ماربل لگی ریمپ اور کار پورچ وغیرہ بھی دھوئے جاتے ہیں۔ میٹھے پانی کے اس بے رحم ضیاع کو دیکھ کر مجھے بلوچستان یاد آتا ہے جہاں کئی سالوں سے نہ صرف خشک سالی ہے بلکہ پینے کا پانی لینے خواتین کو بعض اوقات میل میل کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ شام ان کوٹھیوں میں ٹی وی کے ٹاک شو سنتے ہوئے یہاں کے مکین بھی بلوچوں کو غدار قرار دیتے ہوں گے۔

نہ صرف بلوچوں کو غدار کہا جاتا ہو گا بلکہ ’نوکر‘، مالی، ڈرائیور، خانساماں اور گھر کی صفائی کرنے والی ’بائی‘ کو بھی کام چور کہا جاتا ہو گا۔

پی ٹی ایم والوں کو تو سب سے زیادہ گالیاں پڑتی ہوں گی۔ یہاں بنی دو دو کنال کی کوٹھیوں کے مکین خود تو کیا ان کی اگلی پچھلی نسلوں میں سے بھی کوئی وزیرستان نہیں گیا ہو گا (اکثریت نے لندن اور استنبول ضرور دیکھا ہو گا)۔ اسی طرح ان کا کل ملا کر علم مطالعہ پاکستان اور ارشاد بھٹی کے ٹاک شو سے آگے نہیں گیا ہو گا۔

سچ تو یہ ہے کہ ان مطلق جاہلوں کو غداری کی تعریف بھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہو گی۔ غداری ایک طبقاتی اصطلاح ہے جسے حکمران طبقہ باغیوں، انقلابیوں اور مخالفوں کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اکثر ایک طبقے کا غدار دوسرے کا ہیرو ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی محنت کشوں اور عام شہریوں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو بحریہ، ڈی ایچ اے یااس طرح کی آبادیوں میں دو دو کنال کی کوٹھیاں بنا کر رہنے والے اصل غدار ہیں۔

’غداری ‘کے دھاڑیں مارتے ہوئے ان پاکبازوں سے کوئی پوچھے کہ بھائی جو نقصان تم نے اس ملک کو پہنچایا ہے اور روز پہنچا رہے ہو، اتنا تو ’سرکاری دشمن‘ انڈیا یا یہود و ہنود والی کسی نام نہاد سازش نے بھی نہیں پہنچایا ہو گا۔

یہ درست ہے کہ انڈیا کبھی کبھی دریاوں میں پانی چھوڑ کر ’آبی دہشت گردی‘ کرتا ہے (ایک تحقیق کے مطابق جب دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہوں تو انڈیا ایسا نہیں کرتا) مگر جو آبی دہشت گردی میٹھے پانی سے گاڑیاں دھو کر، درخت اور پودے دھو کر، فرش دھو کر روز روز کی جاتی ہے، اس آبی دہشت گردی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

رئیل اسٹیٹ کے نام پر مافیاؤں نے کسانوں کی زمینیں کنکر یٹ کے بدصورت جنگل میں بدل کر، ملک کو گندم اور خوراک کے بحران سے دو چار کر کے جو غداری کی گئی ہے، اس پر ان دو دو کنال کے ولا میں رہنے والے کبھی بات نہیں کریں گے۔ اس پر کوئی ٹاک شو نہیں ہوتا۔’ہم‘ یا تم چینل پر کوئی سیریل نہیں چلتا۔

ایسے میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے اگر ملک دشمن، عوام دشمن،ماحولیات دشمن،معیشت دشمن، زراعت دشمن ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں رہنے والے مکین ایک ایسے شخص کے حامی اور ووٹر ہیں جو تین سو کنال کا غیر قانونی ’گھر‘ بنا کر بنی گالہ میں رہ رہا ہے۔

کبھی کبھی تو انسان یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر گھر بنی گالہ والے گھر جیسے ہوتے ہیں تو اس چیز کو کیا کہا جائے جس میں ہم محنت کش اور سفید پوش لوگ رہتے ہیں۔ رہے سرکاری ’غدار‘ تو ’غداروں‘ کی اکثریت تو ان پانچ سات مرلے پر بنی چھت کے بارے میں بھی دعا کرتے رہتے ہیں:

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
(افتخار عارف)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔