دنیا

کیا کرونا وائرس اسرائیل میں فلسطینیوں کے خلاف تعصب کا نیا ہتھیار ہے؟

قیصر عباس

اسرائیل کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کو کرونا ویکسین لگ چکی ہے جب کہ فلسطینوں کی ایک بڑی تعداد کو ابھی تک ویکسین فراہم نہیں کی گئی۔ اس صورت حال میں عالمی رائے عامہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا کرونا وائرس کی موذی وبا کو اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ایک نئے ہتھیارکے طورپر استعمال کر رہی ہے؟

اسرائیل جو ملک میں ویکسین کی فوری فراہمی کے لئے دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتا، اسے فلسطینوں کی پانچ ملین آبادی تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے۔ اس عالمی وبا کے تدارک کے لئے اسرائیلی حکومت کے اس کھلے تعصب پر دنیا بھر کی تنظیمیں سخت احتجاج کر رہی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے غرب اردن کے صرف ان فلسطینی باشندوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے جو اسرائیل اور اس کی نئی آبادیوں میں کام کر رہے ہیں۔

عالمی رائے عامہ کی تنقید کے بعد اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی با شندوں کے لئے 60 ہزار ویکسین آئندہ چوبیس گھنٹوں میں فراہم کر دی جائیں گی۔ فلسطین وزارت صحت کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس میں امریکی ویکسین فائزر اور برطانوی اسٹرازینکا شامل ہو گی۔

فلسطینی انتطامیہ کے مطابق وہ اس تعصبانہ رویے کے بعد خود ویکسین کی فراہمی کے انتظامات کر رہی ہے اور اس مقصد کے لئے کوویکس (وبائی دوائیوں کی فراہمی کی تنظیم) اور کمپنیوں سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے۔ عارضی معاہدے کے تحت فلسطینی اور اسرائیلی حکام وبائی بیماریوں میں تعاون کے پابند ہیں اگرچہ صحت عامہ فلسطینی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اسرائیلی حکام کا موقف ہے کہ اس کی اپنی آبادی کی صحت کا تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہے۔

کچھ حلقوں کی جانب سے برطانوی ویکسین کے منفی اثرات پر خطرات کا ظہار کیاگیا ہے جس کے پیش نظر اسے کچھ عرصے تک محفوظ رکھا جائے گا تاکہ اس کی مکمل تحقیق کے بعد ہی استعمال کیا جائے۔ اس صورت حال میں غزہ اور غرب اردن میں فلسطینوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی اس وبائی مرض کے علاج تک رسائی حاصل کر سکے گی۔

خیال کیا جا رہے ہے کہ اگر ان دونوں اقسام کی ویکسین کو استعمال کربھی لیا جائے تو اطلاعات کے مطابق یہ صرف 31 ہزار فلسطینی باشندوں کے لئے سودمند ہوگی اور ملک میں مسلمانوں کی اکثریتی آبادی اس وبا کے علاج سے محروم رہے گی۔

عالمی صحت عامہ کی تنظیموں نے خطرہ ظاہر کیا ہے اسرئیل فلسطینی شہریوں سے اس نئے تعصابانہ رویے کی بناپر پورے ملک میں شہریوں کے لئے خطرات کھڑے کر رہاہے کیونکہ فلسطینی اور یہودی شہری روزانہ کی بنیاد پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر جگہوں پرقریب رہتے ہیں۔

ویسے تو دنیا بھر میں کرونا وائرس کے تدارک میں نسل اور آمدنی کی بنیا د پرغیر مساویانہ برتاؤ جاری ہے لیکن اسرائیل میں اسے ملکی ترجیحات کے تحت فلسطینی شہریوں کے خلاف ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کی عالمی پیمانے پر مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔