لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترک صدر رجب طیب ارگان نے خواتین کے تحفظ کیلئے بنائے گئے بین الاقوامی معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے جس کے بعد استنبول میں سیکڑوں خواتین نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق استنبول کنونشن کے نام سے کونسل آف یورپ کے اس معاہدے میں گھریلو تشدد کو روکنے اور قانونی چارہ جوئی کرنے سمیت صنفی برابری کے فروغ کا ذکر تھا۔ ترکی نے اس معاہدے پر 2011ء میں دستخط کئے تھے، تاہم حالیہ برسوں میں ترکی میں عورتوں کے قتل کیسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سرکاری سطح معاہدے سے علیحدگی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بیرونی دباؤ پر اقدامات کی بجائے ملکی قوانین کے تحت خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ترکی خواتین کے قتل سے متعلق سرکاری اعداد و شمار اکٹھے نہیں کرتا۔ تاہم ترکی میں خواتین کے حقوق پر نظر رکھنے والے ایک گروپ کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں خواتین کے قتل کی شرح میں تقریباً 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور رواں برس اب تک پراسرار طور پر 78 خواتین کا قتل یا موت ہو چکی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں 38 فیصد خواتین اپنی زندگی میں شریک حیات کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جبکہ اس کی نسبت یورپ میں تعداد 25 فیصد ہے۔ کونسل آف یورپ کے معاہدے میں موجود رہتے ہوئے ترکی کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات سے متعلق رپورٹ پیش کرنا ضروری تھا، بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنائے گئے قوانین پر عملدرآمد یقینی نہ بنا نے کی اہلیت حاصل کرنے کی بجائے رجب طیب ارگان نے بین الاقوامی معاہدے سے ہی علیحدگی اختیار کر لی۔