قیصر عباس
”سٹار وار“ امریکہ کی مشہور سیریز ہے جس میں عالمی قوتیں ایک دوسرے سے خلائی جنگ میں مد مقابل نظر آتی ہیں،راکٹ داغے جاتے ہیں، بمباری سے آبادیاں جلائی جاتی ہیں اور خلائی اڑن طشتریوں کو نشانہ بنایاجاتا ہے۔یہاں تہذیبیں مسمار ہوتی ہیں، سیارے تباہ کئے جاتے ہیں اور جنگی جنوں کومختلف حربوں سے عام کیا جاتاہے۔
ٹیکنالوجی، فوجی حکمت عملی اور کرداروں کی زندگی پر مبنی یہ مقبول سیریز اب ایک خواب نہیں حقیقت ہے۔ ڈرامے کے شائقین کو اب خلائی جنگ کے لئے کسی سیریز کا انتظار نہیں کرنے پڑے گاکہ یہ جنگ اب ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
دنیا کی تین بڑی قوتیں، چین، روس اور امریکہ خلا میں جنگ کی تیاریوں میں زور شور سے مصروف ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چین اور روس تو خلائی جنگ کی تیاریوں میں خاصے آگے ہیں مگر اب امریکہ نے بھی اس کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ چین کا خلائی جنگ کا محکمہ گزشتہ پندرہ سال سے انتظامی،تکنیکی اور تربیتی امور پر کام کررہاہے اور کہا جاتا ہے کہ اس شعبے میں وہ خاصا آگے جاچکا ہے۔
چین نے دوسرے ملکوں کے سیٹلائٹ جام کرنے کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ خلامیں لیزر سسٹم کے استعمال اور زمینی مرکزوں سے میزائل کے ذریعے سیٹلائٹ کو تبا ہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ روس بھی ان تمام شعبوں میں آگے ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکہ نے ایک صرف ایک سال پہلے خلائی جنگ کی تیاریوں کا آغاز کرتے ہوئے ’سپیس فورس‘ قائم کرنے کا اعلان کیاتھا۔ یہ ادارہ سٹلائٹ سمیت خلا میں موجودسٹلائیٹ کے تمام ٹکڑوں کا ریکارڈ رکھ کر ان کی نگرانی کرے گا۔ چین نے 2007ء میں خود اپنے سٹلائیٹ کو تباہ کیا تھا جس سے خلا میں 3,000 ٹکڑے بکھرگئے تھے جو اب تک گردش کر رہے ہیں۔
امریکی ’سپیس فورس‘ اور خلامیں جنگی حکمت عملی کے روح رواں جنرل جان ریمنڈنے واشنگٹن ڈی سی میں اس ماہ کے شروع میں بتایا کہ ”ہمیں اس منصوبے پر بڑی تیز رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔“ ان کے مطابق یہ ملک کا سب سے بڑا دفاعی منصوبہ ہے جس میں 6,000 سے زیادہ خلا باز منتخب کئے گئے ہیں جو خلائی ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ 10,000 سول ملازمین بھی ادارے کا حصہ ہیں۔
جنرل ریمنڈ کا کہنا تھا ”بین الاقوامی تعاون ہماری ان کاوشوں کی بنیاد ہے اور ہم اس مقصد کے لئے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔“ اطلاعات کے مطابق امریکہ ا س منصوبے پر ناروے اور جاپان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔منصوبے میں پرائیویٹ کمپنیوں کا تعاون بھی حاصل کیا جائے گا جو سپیس اور راکٹ ٹیکنالوجی میں کام کررہی ہیں۔
چین، روس اور امریکہ کی ان تمام تیاریوں کا مقصد زمین کی سطح سے 100 کلومیٹر اوپر ایک وسیع ’میدان جنگ‘ میں انسانی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ فضا میں موجود لاتعدادسٹلائیٹ جن پر آج دنیا کی بیشتر آبادی کے ذرائع مواصلات کا انحصار ہے، خلا میں آلودگی کے ذمہ دار بھی ہیں۔
اس پس منظر میں لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ یہ تینوں طاقتیں جتنا سرمایہ ایک نیا جنگی محاز کھولنے میں لگارہی ہیں کیا اسے ماحولیاتی تبدیلوں سے نبردآزما ہونے اور عالمی پیمانے پر انسانی بھوک وافلاس جیسے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا؟
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔