لاہور (جدوجہد رپورٹ)افغانستان میں خوست کے پرانے ہوائی اڈے پر امریکی افواج کے ایک پرانے ہوائی اڈے کی مرکزی بیس کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’بیرونی افواج کی مرکزی بیس کو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
غیر ملکی میڈیا کے مطابق منگل کی شام 4 بجے کے قریب ہونے والا یہ حملہ قطر معاہدے کے بعد پہلا موقع ہے جب طالبان کی جانب سے امریکی یا غیر ملکی افواج کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ میڈیا کے مطابق خوست کی اس بیس میں امریکی فوج موجود ہے۔ تاہم اس حملے میں امریکی فورسز کو کسی قسم کے نقصان یا اس حملے کے حوالے سے امریکہ کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
طالبان کی جانب سے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب گزشتہ ہفتے خوست میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے تربیت یافتہ فورس ’خوست پروٹیکشن فورس‘ کے ایک مبینہ حملے میں 20 عام شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ مذکورہ حملے میں عام شہریوں کی ہلاکت کے معاملے کو طالبان نے بطور پروپیگنڈہ استعمال کیا تھا اور طالبان ترجمان کی طرف سے اس حملے کی مذمت پر مبنی بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔
اس حملے سے قبل افغان طالبان غیر ملکی افواج پر حملے نہ کرتے ہوئے قطر معاہدے پر سختی سے عمل کرنے کا دعویٰ اور امریکی فورسز پر معاہدے کی خلاف ورزی کے متعدد الزامات لگا چکے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن بیان دے چکے ہیں کہ فی الحال ایسا کرنا ’مشکل‘ ہے جس پر ردعمل میں طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے دوحہ معاہدے اور غیرملکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق مبہم بیان دیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ طے شدہ تاریخ پر تمام فوجی نہ نکلے تو یہ امریکہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھی جائے گی۔ واضح رہے کہ افغان امن مذاکرات کے دوران بھی افغانستان میں کشیدگی کا ماحول برقرار رہا ہے لیکن اس سے قبل ہونیوالی شدت پسند کارروائیوں کو داعش سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ طالبان نے قطر معاہدے کے بعد اس پہلے مسلح کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ افغانستان میں کشیدگی کے خاتمے اور امن کے دائمی قیام کا مرحلہ ابھی کافی دور ہے۔
امریکی سامراج کی ایما پرہی تیار ہونے والے طالبان، القاعدہ، داعش سمیت متعدد مسلح گروہ افغانستان میں سرگرم ہیں اور تذویراتی مفادات کیلئے اس خطے پر مسلط کی گئی امریکی سامراج کی جنگ سے خود امریکی سامراج کو نکلنے کیلئے مزید دشواریوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔