لاہور (نامہ نگار) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق وزیرستان سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو بس اسٹینڈ پرقبضے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ انکشاف صحافی ’اسد علی طور‘نے اپنے ایک ’وی لاگ‘ میں کیا۔ وہ آرمی چیف کی پاکستان کے چنیدہ اینکر پرسنز سے ملاقات کے دوران ہونے والی غیر رسمی گفتگو کی تفصیلات بتا رہے تھے۔
اسد علی طور نے انکشاف کیا کہ ایک اینکر پرسن نے جب علی وزیر کی والدہ کا پیغام آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دیا اور انکی گرفتاری سے متعلق سوال کیا تو آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ”آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں (علی وزیر) نے ایک بس اسٹینڈ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ انکی والدہ کو بتائیے کہ ہم نے نہیں پکڑا ہوا، ان کے اوپر ایک جرم ہے۔ کیا ایسا کرنا چاہیے ایک ایم این اے کو…؟“
علی وزیر کے خاندان کے ذرائع کے مطابق علی وزیر کا ڈیرہ اسماعیل خان کے بنوں اڈے میں ایک ٹرانسپورٹ ٹرمینل تھا جسے انتظامیہ نے 2016ء میں جبراً اور بلاجواز بند کر دیا تھا۔ ٹرانسپورٹ ٹرمینل یا بس اسٹینڈ پہ قبضے سے متعلق علی وزیر پر کوئی کیس موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ علی وزیر سابقہ فاٹا میں بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنے والے اولین سیاسی کارکنان میں سے ایک ہیں۔ 2008ء سے انتخابات میں حصہ لیتے آئے ہیں اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے ابھرنے کے بعد وہ اس تحریک کے صف اؤل کے قائدین میں بھی شریک ہوئے اور آزاد حیثیت سے گزشتہ انتخابات میں وہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
2003ء میں علی وزیر کے بھائی کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا گیا۔ 2005ء میں علی وزیر کے والد ملک مرزا عالم کو 2 بیٹوں اور 2 بھتیجوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ اس وقت تک علی وزیر کے خاندان کے 17 افراد دہشت گردوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ میں قتل کئے جا چکے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے اعظم ورسک علاقے میں موجود علی وزیر کے پٹرول پمپ کو مسمار کیا گیا۔ انکے نو تعمیر شدہ مکان کو مسمار کیا گیا، اعظم ورسک میں ان کے باغ پر زہریلے کیمیائی مواد کا سپرے کر کے فصل کو تباہ کیا گیا۔ ستمبر 2016ء میں انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے ”اجتماعی ذمہ داری کے قانون“ کے تحت وانا میں علی وزیر کی 120 دکانوں پر مشتمل مارکیٹ کو بموں سے اڑا کر تباہ کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ اس کارروائی سے متعلق قومی میڈیا پر خبروں میں بتایا گیا تھا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا ہے۔
علی وزیر کو گزشتہ سال دسمبر میں پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کے خلاف ایک غیر قانونی جلسہ منعقد کرنے اور سکیورٹی اداروں کے خلاف تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہے۔ علی وزیر کی درخواست ضمانت کی سماعت کراچی جیل میں ہی انسداد دہشت گردی عدالت میں کی گئی اور ضمانت مسترد کی گئی تھی۔ بعد ازاں علی وزیر کے وکلا نے سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کیلئے رجوع کر رکھا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی دو ماہ سے ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے لیکن تاحال فیصلہ سنایا نہیں جا سکا ہے۔