لاہور (جدوجہد رپورٹ) سری لنکا کی کابینہ نے قومی سلامتی کی بنیادوں کا حوالہ دیتے ہوئے عوامی مقامات میں برقع پہننے پر پابندی کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس پابندی کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
پبلک سکیورٹی منسٹر ویراسیکرا نے عوامی مقامات میں برقع پہننے پر پابندی عائد کرنے کی تجویز کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس میں پیش کی تھی، جسے کابینہ نے منظور کر دیا ہے۔ اس تجویز کو اب اٹارنی جنرل کو بھیجا جائے گا اور قانون بننے کیلئے پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد سری لنکا میں عوامی مقامات پر برقع پہننا قانوناً جرم بن جائیگا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ میں حکومت کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ تجویز آسانی سے منظور کی جا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر حکومت ویراسیکرا نے برقع کو ایک لباس قرار دیا ہے جو مسلمان خواتین جسم اور چہرے کو ڈھانپنے کیلئے پہنتی ہیں۔ وزیر حکومت کے مطابق برقع پہنا مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے اور اس پابندی سے قومی سلامتی میں بہتری آئیگی۔
واضح رہے کہ 2019ء کو سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر خود کش بم حملوں میں 260 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد برقع پہننے پر عارضی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 2 رومن کیتھولک چرچوں، ایک پروٹسٹنٹ چرچ اور 3 ہوٹلوں میں ہونے والے ان 6 بم حملوں کی ذمہ داری مقامی مسلم گروہوں نے قبول کی تھی، ان گروہوں نے داعش کے ساتھ بیعت کا بھی اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ماہ پاکستانی سفیر سعد خٹک نے ٹویٹ کیا تھا کہ اس پابندی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونگے۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے بار ے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ احمد شہید نے بھی ایک ٹویٹ میں اس پابندی کو بین الاقوامی قانون اور آزادانہ طور پر مذہب پر عملدرآمد کے حق سے متصادم قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ سری لنکا کی 22 ملین آبادی میں 9 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ 70 فیصد آبادی بدھ مت کے پیروکاروں کی ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی نسلی اقلیت تمل کی آبادی 15 فیصد ہے۔