راجہ مظفر
چین کا پاکستان میں اور سعودی عرب کا انڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کا مستقبل انڈیا، پاکستان اور افغانستان میں اندرونی سیاسی استحکام اور علاقائی امن سے جڑا ہوا ہے۔
امریکہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری چاہتا ہے اور وہ جنرل باجوہ سے کئے گے وعدوں پر قائم ہے کیوں کہ اسے افغانستان سے افواج کا انخلا چاہیے جس کے لیے اسے پاکستان کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ بھارت، ایران، روس اور عرب ممالک خصوصی طور پر سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کو امن عمل میں پارٹنر کے طور پر ضرورت ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں مختلف سیاسی و عسکری دھڑوں کے ساتھ ان ممالک کے براہ راست تعلقات ہیں یا ان ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ امریکہ نے اپنے منصوبے میں ان سب کو آن بورڈ رکھا ہوا ہے اور ان سے الگ الگ بات بھی کر رہا ہے۔ شنید ہے کہ اس سارے عمل میں اسے چین کا بھی تعاون حاصل ہے۔
عید الفطر سے چند دن پہلے، جنرل قمر باجوہ کی مدعیت میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران مفاہمتی یادداشتوں اور اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان کا جائزہ لیں تو اس کا خاصا تعلق ’معاہدہ ابراہیم‘اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی اس امریکی حکمت عملی سے جا ملتا ہے، جو جنرل باجوہ اور امریکی پینٹاگون کے درمیان براہ راست ملاقاتوں میں طے ہوئی۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی کوششوں سے اگست 2020ء میں حضرت ابراہیم کے نام سے منسوب اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ”معاہدہ ابراہیم“ ہوا تھا۔ اس معاہدہ پر ٹرمپ انتظامیہ کے تعاون سے اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے دستخط کئے تھے۔ خلاف توقع بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف اس معاہدے کی توثیق کی ہے بلکہ ٹرمپ دور کی: جنوبی ایشیا، پاک بھارت تعلقات، کشمیر اور افغانستان کے بارے طے کی گئی حکمت عملی کو بھی جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
حال ہی میں صدر بائیڈن اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اتفاق ہوا کہ بائیڈن انتظامیہ کے حکام کو معاہدوں کی تعمیل میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینا چاہئے۔
”معاہدہ ابراہیم“ کی طے شدہ تشریحات اور روح کے مطابق اسرائیل، متحدہ عرب امارات، یونان اور قبرص کے عہدیداروں نے اس سال اپریل میں ملاقات کی، تاکہ توانائی سے لے کر کورونا جیسی وبائی امراض سے لڑنے تک ہر چیز پر باہمی تعاون گہرا کیا جا سکے۔ ایک وقت امریکی انتظامیہ کی موجودہ ٹیم کی سوچ یہ تھی کہ امریکی حکومت کے مشرق ِوسطی اور جنوبی ایشیا کے امور بشمول عراق اور افغانستان سے دستبرداری ایک خطرناک خلا پیدا کرے گی۔
اب نئی سوچ یہ ہے کہ کچھ فاصلہ رکھنے سے تنازعات میں الجھے ممالک کو خود ایک دوسرے کے قریب لانے اور زیادہ سے زیادہ خود انحصاری کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں کو وائٹ ہاؤس آتے ہی حیرت ہوئی کہ ان کی سوچ کو عملی جامعہ پہنانے کی لئے تاریخی موقع اتنی جلدی سامنے آیا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری جھڑپوں کے بعد کیا صورتحال بنے گی، اس بابت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ادہر، جنرل باجوہ اور عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے اشارے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب پاکستان کی کھل کر حمایت کرے گا؟ ماہرین کے مطابق بھارت سعودی عرب کا اہم تجارتی پارٹنر ہے اور سعودی عرب بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔
عمران خان کے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے دوران جن مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے وہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان معاہدوں اور دورے کے دوران سامنے آنے والی خبروں میں بین السطور ”معاہدہ ابراہیم“ کی روح آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے (پاک سعودی مشترکہ بیان کا مکمل متن سعودی گزٹ نے شائع کیا ہے)۔
اس مشترکہ بیان میں فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر کشمیر کے بارے پاکستان کے سرکاری موقف ’اقوام متحدہ کی قراردادوں یا حق خودارادیت کا کوئی ذکر نہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان نے ”خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لئے، دونوں ممالک کے درمیان جموں کشمیر تنازعہ کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کی اہمیت پر زور دیا ہے“۔
تاہم، سعودی حکومت کی جانب سے عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مابین ہونے والی ملاقات کے بارے میں جاری کردہ بیان میں ہندوستان یا مسئلہ کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا البتہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادے نے ”لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے فوجی حکام کے مابین حالیہ مفاہمت کا خیرمقدم کیا ہے، جوپاکستان اور بھارت کے مابین 2003ء کی مفاہمت پر مبنی ہے“۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی حکمت عملی میں بائیڈن انتظامیہ نے بہت معمولی ترمیم کے ساتھ سرعت سے عمل درآمد کے لئے ایک ٹائم فریم دیا ہے۔
ٹرمپ دور میں امریکہ نے افغانستان سے واپسی کے حوالے سے پاکستان کے بعض اہم مطالبات مانے جن میں پاکستان کی معطل شدہ فوجی امداد کی بحالی، پاکستان کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لئے ہنگامی مدد، آئی ایم ایف کو قرضہ کی شرائط نرم کرنے اور کشمیر پر بھارت کے ساتھ مصالحتی کردار ادا کرنے اور بھارت کو پاکستان کے اندر بلوچستان اور وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے ذریعہ آپریشن بند کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔
پاکستان، جوابی طور پر، طالبان کو قطر اور یو اے ای میں ہونے والے مذاکرات کی میز پر لایا۔ اسی طرح امریکہ نے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم کو دہشت گرد قرار دے کر پابندی لگائی، ٹی ٹی پی کے لیڈروں کو براہ راست ڈرون اٹیک کر کے مارا، صدر ٹرمپ نے ذاتی طور نریندر مودی کو پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے اور اپنی مصالحت کرانے کی آفر پر راضی کیا۔
پلوامہ حملہ کے بعد ایک خطر ناک صورت حال پیدا ہوئی۔ جب صورت حال گھمبیر ہوئی تو امریکہ نے سارا معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے سعودی حکومت سے مدد کی درخواست کی چنانچہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے علاقے کا ہنگامی دورہ کر کے بھارتی پائلٹ کو رہا کرا کر حالات کو قابو کرنے کی کوشش میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکہ بعض مطالبات پاکستان سے بالواسطہ منوانے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ اس نے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنی فوجی طاقت کی موجودگی اور بحری بیڑے کی فوجی استعداد بڑہانے کے لئے حال ہی میں بمبار جہازوں کی ایک کھیپ بھیجی ہے اور پاکستان کے باخبر صحافی نجم سیٹھی کے بقول پاکستان سے دو ائیر بیس استعمال کرنے کی اجازت بھی مانگی ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن سے پورے خطہ کا مستقبل جڑ چکا ہے۔ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہو یا سعودی عرب کی انڈیا میں دونوں کا مستقبل خطے میں امن اور سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔
کشمیر کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادں کے مطابق نہیں نکل سکتا کیوں کہ وہ لاگو ہونے کے قابل نہیں رہیں۔
کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے دونوں ملکوں کو درمیانی راستہ اپنانا ہو گا۔ دونوں ملک اگر جموں کشمیر سے اپنی اپنی افواج کے نکالنے کے معاہدے پر دوبارہ بات چیت شروع کریں تو ایک ایسا حل نکل سکتا ہے جس سے کشمیری عوام بھی مطمئن ہو جائیں اورعلاقے میں بھی امن و استحکام آ جائے گا۔