تحریر: لال خان
افغانستان پر امریکی جارحیت کو اٹھارہ سال ہو چلے ہیں۔ کوریا، ویتنام، عراق اور شام کے بعد امریکی سامراج کو افغانستان میں بھی شکست کا سامنا ہے۔ سامراج کی مایوسی اور نامرادی کا اندازہ اس کی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری اور ’امن مذاکرات‘ سے ہوتا ہے جو ناکامی سے دوچار نظر آ رہے ہیں۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی سہ ماہی رپورٹ نے انکشاف کیا کہ ”پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ طالبان اور دیگر مسلح گروہوں کی نسبت امریکی اور افغان حکومت کی فورسز کے ہاتھوں زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ خونریزی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ ایک طرف سے فضائی بمباری میں اضافہ کر رہا ہے اور دوسری طرف اُن طالبان سے امن معاہدے کی کوشش بھی کر رہا ہے جو پہلے کی نسبت اِس وقت ملک کے زیادہ وسیع حصے پر قابض ہو چکے ہیں… 2019ءکے پہلے تین مہینوں میں بین الاقوامی اور حکومتی فورسز کے ہاتھوں 5 30 جبکہ مسلح گروہوں کے ہاتھوں 227 شہری ہلاک ہوئے۔ 2017ءمیں امریکی افواج نے اس وقت اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا تھا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کو چھوٹ دی تھی…“
امریکی ایئرفورس سینٹرل کمانڈ کے مطابق سال 2018ءمیں امریکہ نے افغانستا ن پر 7362 بم گرائے۔ یہ 2010ءکے بعد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
سامراجی حملہ آور اور سابقہ مجاہدین (جو آج طالبان بن چکے ہیں) دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ نام نہاد مجاہدین کے ان مسلح گروہوں کو چار دہائیاں پہلے امریکی سامراج نے سعودی اور پاکستانی حکومتوں کےساتھ مل کے تخلیق کیا تھا۔ یہ سارا منصوبہ سی آئی اے کی ایجاد تھا۔ یہ امریکی سامراج کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن تھا جو اس انقلاب کو کچلنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس نے پہلی مرتبہ افغانستان کے غریب اور محکوم عوام میں خوشحال مستقبل کی امید پیدا کی تھی۔ 27 اَپریل 1978ءکا ثور انقلاب اس پسماندہ ملک، جو دو صدیوں تک برطانیہ اور روس کی سامراجی گریٹ گیم کا خونی اکھاڑہ بنا رہا، کے عام لوگوں کے لئے آگے کی جانب ایک تاریخی جست کی حیثیت رکھتا تھا۔
27 اور 28 اپریل کے ڈرامائی واقعات، جن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) نے نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں طاقت پر قبضہ کرکے انتہائی وسیع اور ریڈیکل اصلاحات کا آغاز کیا، کے بعد سامراجی میڈیا اور سرکاری دانشوروں نے زہریلے ردِ انقلابی پراپیگنڈا کی یلغار شروع کر دی۔ یہ رجعتی قوتیں ہر حال میں ثور انقلاب کو کچلنے کے درپے تھیں۔
سرکاری تاریخ میں ثور انقلاب کو سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور قبضے سے منسوب کیاجاتا ہے۔ اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ روسی افواج انقلابی سرکشی کے اٹھارہ ماہ بعد 29 دسمبر 1979ءکو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں (سی آئی اے کی مداخلت اس سے چھ ماہ قبل ہی شروع ہو چکی تھی)۔ انقلابی افغانستان کے پہلے دو صدور اور پی ڈی پی اے کے خلق دھڑے کے رہنماﺅں نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کو ماسکو میں برسراقتدار افسرشاہانہ حکومت پر زیادہ اعتبار نہیں تھا۔ پی ڈی پی اے کی قیادت کا یہ دھڑا کسی بھی بیرونی قوت بشمول سوویت یونین کی مداخلت کے سخت خلاف تھا۔ نور محمد ترہ کئی ایک محلاتی سازش میں قتل ہوئے اور حفیظ اللہ امین کو روسی افواج نے اپنی مداخلت کی شام ہی قتل کر دیا۔
اگرچہ ثور انقلاب مارکسی نکتہ نظر سے کوئی کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا لیکن اس نے خطے میں جاگیردارانہ جبر، قبائلی پسماندگی، مذہبی رجعت، سرمایہ دارانہ و سامراجی استحصال پر ایسی ضرب لگائی جو جنوب ایشیا میں کوئی دوسرا واقعہ نہیں لگا سکا تھا۔ سوویت یونین کی افواج کی افغانستان میں مداخلت سے پہلے کے اٹھارہ مہینے میں ملک کی سماجی اور معاشی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں انقلابی اقدامات کیے گئے۔ عورتوں کی برابری کو یقینی بنانے اور مردانہ جبر کے خاتمے کے لیے لڑکیوں کی مال و اسباب کے بدلے جبری شادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ جاگیرداروں، ملاﺅں اور شاہی خاندان کی زمینوں کو بغیر معاوضے کے ضبط کرکے بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسان کوآپریٹو تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غریب کسانوں پر نسلوں سے چلے آرہے سودخوروں اور زمینداروں کے قرضوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ ملک میں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر اور صنعتکاری کے آغاز کے منصوبے شروع کیے گئے۔ خواندگی کے بڑے پروگرام شروع کیے گئے۔ 1984ءتک پندرہ لاکھ لوگوں نے خواندگی کے کورس مکمل کیے۔ اس سال پورے ملک میں بیس ہزار خواندگی کے کورس چل رہے تھے جن میں 377,000 اَفراد تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ 1986ءتک تمام شہری علاقوں اور 1990ءتک پورے افغانستان سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے۔
انقلاب کا سب سے اہم قدم جاگیرداری کی باقیات اور سرمایہ داری کی انتہائی پسماندہ اور رجعتی شکلوں کے ملاپ پر مبنی حکمران طبقے کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ تب ہی یہ ریڈیکل اقدامات کیے جاسکتے تھے۔ ثور انقلاب نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں بورژوا جمہوری انقلاب کے بنیادی فرائض کی تکمیل بھی سوشلسٹ اقدامات سے ہی کی جا سکتی ہے۔
لیکن ان ریڈیکل اقدامات نے خطے میں سامراجی قوتوں اور ان کے پروردہ مقامی حکمران طبقات کے مفادات کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ طاقت کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ سامراجی پشت پناہی سے ’کمیونسٹ کافروں‘ کے خلاف چلنے والے اس نام نہاد جہاد کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ردانقلابی بغاوت تھی تاکہ اس انقلاب کے نتیجے میں آنے والی ترقی کے اثرات کو خطے کے دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکا جائے۔ اس ردانقلابی جنگ کے نتیجے میں یہ پورا خطہ ایک ایسی خونریزی میں غرق ہوگیا جس سے یہاں کے عوام کی زندگیاں آج تک برباد ہیں۔ آج امریکی سامراج اور اس کی حواری طاقتوں کی پیدا کردہ اسی بنیادپرستانہ وحشت، جس کی نئی شکلیں داعش وغیرہ کی صورت سامنے آ رہی ہیں، نے مشرق بعید سے مشرق وسطیٰ اور یورپ سے لے کے امریکہ تک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ افغانستا ن اور پاکستان پرتشدد اور جرائم پیشہ سماج بن گئے ہیں جہاں کلاشنکوف کلچر اور منشیات عام ہیں اور معیشتیں کالے دھن کے کینسر سے پھول کر مزید دہشت گردی اور انتشار کو جنم دے رہی ہیں۔
انقلاب کے بارے ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلائی گئی کہ یہ کسی مخصوص قوم کا انقلاب ہے۔ اس غلط فہمی کو انقلاب کے قائد نورمحمد ترہ کئی نے ہی اپنی ایک تقریر میں دور کیا جو سالوں تک پوشیدہ رہی۔ نور محمد ترہ کئی ثور انقلاب کے بین الاقوامی کردار کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رکھتے تھے۔ انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے کہا، ”ثور انقلاب صرف افغانستان کے مزدوروں اور سپاہیوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوم عوام کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب جسے خلق پارٹی کی قیادت میں مسلح سپاہیوں نے انجام دیا‘ پوری دنیا کے مزدوروں کے لئے عظیم کامیابی ہے۔ 1917ءکے اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ وہ ہمارے انقلاب کے لئے ایک مشعل راہ ہے جس نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے۔“
ثور انقلاب اور اس کے بعد کے ردانقلاب نے 1893ء کی اس ڈیورنڈ لائن کی بے معنویت کو بھی آشکار کر دیا جسے پشتونوں کو تقسیم کرنے کے لئے کھینچا گیا تھا۔ خاردار تاریں لگا کے اور خندقیں کھود کے لوگوں کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص شمال مغرب میں افغانستان اور پاکستان کے انقلابی اور رجعتی رجحانات آپس میں فطری طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
آج کا تباہ حال افغانستان مغربی اور مشرقی سامراجی ممالک کی وحشت کا شکار ہے۔ یہ سب افغانستان کی بیشمار معدنی دولت اور سٹریٹجک محل و قوع کے درپے ہیں۔ افغانستان میں مداخلت کرنے والے تمام ممالک کی اپنی اپنی پراکسیاں ہیں۔ اس لئے طالبان بھی کوئی یکجا قوت نہیں ہےں۔ نہ ہی وہ اس ستم رسیدہ سرزمین کے باسیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اشرف غنی اپنے پیشرو کی طرح ایک سامراجی گماشتہ ہے جس کی کابل سے باہر کوئی رِٹ نہیں ہے۔ ایسے کٹھ پتلی سیٹ اپ میں کوئی حقیقی امن حاصل نہیں ہوسکتا۔
افغانستان میں گزشتہ چالیس سالوں کی بیرونی مداخلتوں اور پراکسی جنگوں سے خونریزی اور انتشار میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ ثور انقلاب کا بنیادی سبق یہ ہے کہ صرف طبقاتی جدوجہد کے پروگرام پر ہی استحصال زدہ عوام کو یکجا اور سارے فساد کی جڑ سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سامراجیوں کی کھینچی گئی مصنوعی لکیریں طبقاتی یکجہتی اور انقلابی جدوجہد کو نہیں روک سکتیں۔ آج کے حالات میں ایک انقلابی سرکشی کو اپنی کامیابیوں کو دوام بخشنے کے لئے ان مصنوعی سرحدوں سے باہر نکلنا ہوگا۔ اسی طرح سے تشدد، استحصال اور محرومی سے پاک سماج کا قیام ممکن ہوسکے گا۔