فہد مڑل
27 جون کو لاہور میں رنجیت سنگھ کا آٹھ فٹ اونچا مجسمہ ان کی 180ویں سالگرہ پر شاہی قلعے کے باہر مائی جنداں حویلی کے سامنے جو ش و خروش سے نصب کیا گیا۔ تاہم ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مجسمہ کس چیز کی علامت ہے اور اس علامت کی تعبیر کیسے کی جائے۔ اس مجسمے کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ضرورت تھی۔ اصولی طور پر تو اس بارے کوئی دو رائے نہیں کہ نصابی تاریخ میں جن پہلووں کی نفی کی گئی ہے اور جس طرح سے غیر مسلم تاریخی وراثت کو فراموش کر دیا گیا ہے اس رجحان کا خاتمہ ہو نا چاہئے۔تاریخ کو اس کی تفصیلات و جزئیات، اس کے تنوع اور درست تناظر میں پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کو مذہبی عینک لگا کر ایسے قصے کہانیوں کے طور پر نہیں پڑھنا چاہئے جس میں کسی ایک مذہب کے فاتحین کی شان میں قصیدے بیان کیے گئے ہوں۔
مندرجہ بالا انتباہ کے باوجود بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر اس مجسمے کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت کا دائرہ کار، اس کی جنگ پسندی اور پنجابی بالا دستی کے حوالے سے اس کی روشناسی کوئی ایسے پہلو نہیں کہ جن پر فخر کیا جائے۔ بالا دستی اور کوتاہ سر قوم پرستی کے نتیجے میں شاونزم فروغ پاتا ہے۔ اگر مجسمہ لگانا ہی تھا تو بھگت سنگھ کا لگایا جاتا۔ لاہور کا شادمان چوک، جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی، بھگت سنگھ کے نام پر سرکاری طور پر منسوب بھی کیا گیا مگر مذہبی جنونیوں کی مخالفت کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
بھگت سنگھ کے مجسمے کی اپیل رنجیت سنگھ کے مجسمے سے کہیں وسیع ہوتی کہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو مذہبی بنیادوں پر ایک مفروضہ شاندار ماضی کی بحالی کی علامت ہے۔ عسکریت اور بالادستی کے حوالے سے معروف ایک علامت کو نمایاں کرنے کا مطلب ہے کہ تنوع اور برابری کی بجائے تنگ نظری، گروہی مفادات اور بالا دستی کے نظریات کو فروغ دیا جائے۔ یہ وہ اقدار ہیں جن کی حمایت کرنا بہت سے لوگوں کو شاید پسند نہ ہو۔
لمز (LUMS)سے وابستہ ڈاکٹر علی قاسمی کے بقول ”رنجیت سنگھ کو ماننے کا مطلب ہے اقتدار کی خواہش، سلطنت قائم کرنے کی حسرت، ایک مفروضہ ماضی کی خواہش۔ یہ اسی قسم کا جذبہ ہے جو مغلوں یا غزنوی اور غوری جیسے فاتحین کے حوالے سے ابھرتا ہے۔ یہ دلیل کہ رنجیت سنگھ ”دھرتی کا سپوت“ تھا پر اسرار حد تک بی جے پی کی مغل مخالفت سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ بات دہرانا بھی ضروری ہے رنجیت سنگھ کا مجسمہ پنجابی شاونزم پر فخر کی علامت ہے۔ یہ مجسمہ پشتونوں کو ’سبق سکھانے‘ اورانہیں شکست دینے کا پیغام دیتا ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم ’کیسری‘ کا بھی یہی پیغام ہے۔ یہ فلم جنگِ ساراگڑھی (1897ء) کے موضوع پر ہے۔ اس جنگ میں 21 سکھوں نے دس ہزار افغانوں کا مقابلہ کیا اور فلم میں افغانوں کو وحشی بنا کر پیش کیا گیا ہے۔“
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ شاعروں، ادیبوں، انسان دوست شخصیات، مدبروں اور جنگ آزادی کے سپاہیوں کے مجسمے لگانے کے لئے تو لاہور کے چوراہوں میں جگہ نہیں ہے۔ لاہور میں بھگت سنگھ، بھائی رام سنگھ اور گنگا رام کا مجسمہ لگانے کے لئے تو کوئی جگہ میسر نہیں۔ اگر جگہ ہے تو عسکریت اور بالادستی کی علامتوں کو نمایاں کرنے کے لئے۔ ان گنت چوک اور عمارتیں ہیں جو محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، ابدالی یا غزنوی کے نام سے منسوب ہیں۔ کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں یہ فاتحین گھوڑے پر سوار نظر آئیں گے۔ جنگ کی ثنا خوانی کرتی کئی اور علامتیں ملک بھر میں ملیں گی۔ ہر دوسرے چوک میں توپ، ٹینک، میزائل، جنگی جہاز یا بندوق بردار مجسمے دکھائی دیں گے۔
ایسی یادگاریں تعمیر کرنے کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کس قسم کی ثقافت کو فروغ دیتی ہیں؟ اس بارے میں کبھی بات نہیں ہو گی۔ دانشوروں، ادیبوں، مفکروں، محققین اور اکیڈیمکس کو اس موضوع پر بحث اور بات چیت کرنی چاہئے مگر ایسا کہیں نہیں ہو رہا۔ وائے بد قسمتی پاکستان ایسا ملک نہیں جہاں دانش یا سیاسی، سماجی اور تاریخی شعور کی قدر کی جاتی ہو۔ ورنہ ہم یہ بحث ضرور کرتے کہ ہماری پہچان کیا ہونی چاہئے اور دنیا میں ہماری شناخت کیسی ہونی چاہئے۔
ہمارے ہا ں چند عقل ِ کل پائے جاتے ہیں (تخیل سے عاری کچھ ’نا معلوم افراد‘، ان کے پالتو سیاستدان اور کچھ نوکر شاہی کے بوسیدہ کل پرزے) جن کی سوچ محدود، مفادات انتہائی گھٹیا اور نصب العین انتہائی گروہی یا وقتی ہو گا۔ یہ گروہ طے کرتے ہیں کہ ہم کیا سوچیں، کسے ہیرو سمجھیں اور کسے غدار قرار دے دیا جائے۔ اس گروہ کو جو چیز ناپسند ہے وہ تاریخ کے صفحوں اور اجتماعی شعور سے حذف کر دی جاتی ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ اس سارے عمل کے بارے میں عوام کو لاعلم رکھا جاتا ہے یا ان کا اس سارے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
رنجیت سنگھ کی طرف واپس آتے ہیں۔ سرائیکی وسیب کو ہی لیجئے۔ اس خطے میں رنجیت سنگھ کو ہیرو نہیں سمجھا جاتا۔ تاریخ سے نابلد ثقافتی زاروں کو اس کا نہ تو علم ہے نہ ہی انہیں اس بابت سرائیکی خطے سے کوئی ہمدردی ہے۔ انہیں تو یہ ادراک بھی نہیں ہے کہ متنوع قومیتوں پر مبنی ملک میں گروہی سوچ کے ساتھ انتظامی معاملات نہیں چلائے جا سکتے۔
آخر میں وہ سادہ لوح احباب جو رنجیت سنگھ کے مجسمے کو دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب ہماری غیر مسلم وراثت بھی تاریخ کا حصہ بننے لگی ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ زیادہ جذباتی نہ ہوں۔ ضیا آمریت کے ترتیب دئیے ہوئے زہر آلود نصاب میں ہمارا نظامِ تعلیم کوئی تبدیلی کرنے پر تیار نہیں۔ ان حضرات کے حوالے سے فیض کے چند اشعار ہی دہرائے جا سکتے ہیں:
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یونہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی