لاہور (جدوجہد رپورٹ) معروف صحافی اسد علی طور نے اپنے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ پر پاکستانی حکام نے افغانستان میں تصفیہ کروانے اورطاقت کی شراکت داری پر مبنی حکومت بنوانے کیلئے افغان طالبان سے مذاکرات کئے لیکن طالبان نے پاکستان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
اسد طور کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں جب طالبان کا وفد پاکستان آیا تھا اور ان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان نے بھی کچھ باتیں اپنے ایک انٹرویو میں بتائی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان نے یہ کہا ہے کہ اشرف غنی کے ہوتے ہوئے وہ کسی طرح کے مذاکرات، تصفیہ اور امن عمل کا آغاز نہیں کرینگے۔
انکا کہنا تھا کہ آرمی چیف اور حکومت بھی مختلف طریقوں سے یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ مغربی دباؤ ہے، امریکہ اور دوسرے ممالک اپنی ناکامی کا ملبہ ہم پر ڈال رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے، بار بار کہا کہ انتشار نہ پھیلائیں اور پر امن طریقہ سے تمام معاملات پر تصفیہ کریں۔
انکا کہنا تھا کہ امریکی صحافی کیتھی گینن نے رپورٹ کیا کہ آرمی چیف دو مرتبہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران غصے میں واک آؤٹ بھی کر گئے۔ کامران یوسف نے خبر دی ہے کہ جب پاکستانی حکام کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اشرف غنی حکومت کو بھی عوام کی حمایت حاصل ہے اس لئے پاور شیئرنگ کریں، اقتدار میں کچھ حصہ اشرف غنی حکومت کو دیں اور کچھ طالبان رکھ لیں اور اس طرح سے کچھ عرصہ مل کر حکومت چلائیں اور مل کر ہی ایک نیا نظام وضع کریں جس کے تحت مستقبل میں افغانستان میں اقتدار چلایا جا سکے۔ اس پر طالبان نے کہا کہ پاور شیئرنگ اگر اتنی ضروری ہوتی ہے تو پھر پاکستان میں بھی عوام کی کچھ فیصد حمایت تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی ملی ہے، اس حساب سے آپ بھی اقتدار میں کچھ حصہ انہیں بھی دے دیں۔
اسد علی طور کہتے ہیں کہ وزرا اور سکیورٹی حکام طالبان کا یہ جواب سن کر حیران رہ گئے اور مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ طالبان نے یہ واضح کیا کہ وہ ہر حال میں پورے افغانستان کو فتح کرینگے، تاہم یہ کوشش کرینگے کہ ماضی کی طرح قتل عام نہ ہو۔