فاروق طارق
تحریک انصاف حکومت کو اب ایک حقیقی چیلنج کا سامنا ہے۔ 13 جولائی کو ملک بھر کی مختلف تاجر تنظیموں نے ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ تاجر تنظیمیں وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ فیصل آباد، سرگردھا اور کچھ دیگر شہروں میں اس سے قبل ہی شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ہڑتالوں کا موسم آگیا ہے۔ اس قسم کی تاجروں کی ہڑتالیں ماضی میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف ہوتی تھیں۔ مگر ٹیکسوں کا اس قدر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے حامی تاجر بھی ہڑتال کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔
حکومت ایک مخصمے میں ہے۔ اگر تاجروں کے مطالبات مانتی ہے تو آئی ایم ایف ناراض۔ اگر نہیں مانتی تو عوامی ردعمل اور نفرت میں مسلسل اضافہ۔ جھوٹے وعدے چند دنوں اور ہفتوں کے لئے ہی کسی عمل کو موخر کر سکتے ہیں‘ مستقل نہیں۔
حکومت اس ہڑتال کو زائل کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ تاجروں سے جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ دس جولائی کو کراچی میں وزیر اعظم نے تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات میں انہیں یقین دہانیاں کرائیں کہ ان کے مطالبات پر عمل کیا جائے گا۔ تاجروں کے وفد نے وزیراعظم کے سامنے ٹیکس نظام میں اصلاحات، آمدنی بڑھانے، افراط زر اور اسملنگ کی روک تھام، کاروبار کے مواقع پیدا کرنے، سرمایہ کاری کے فروغ اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے متعلق تجاویز بھی پیش کیں۔
ادھر فیڈرل بیورو آف ریوینیو کے نئے چیئرمین شبر زیدی نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس ڈھٹائی سے شاید ہی کسی بیوروکریٹ نے جھوٹ بولا ہو۔ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے وہ ہڑتالوں وغیرہ سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
اسی روز آئی ایم ایف کے معاہدے کے مندرجہ جات بھی روزنامہ ڈان میں شائع ہوئے۔ جس کے مطابق پاکستان میں مستقبل قریب میں مزید سخت ٹیکسوں کا نفاذ ہونے جا رہا ہے۔ رواں برس 15 کھرب 60 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں گے۔ جس کے بعد آئندہ برس 15 کھرب کے مزید ٹیکس اور اس کے بعد آنے والے سال میں 13 کھرب 10 ارب روپے کے ٹیکس لگائے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے پر مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے بھی دستخط کیے جس کی رو سے اگست کے مہینے کے دوران ایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
اسی بجٹ میں حکومت کی جانب سے گاڑیوں پر 2.5 سے 7.5 فیصد تک ایف ای ڈی عائد کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کارساز فیکٹریوں نے اپنی پراڈکشن میں کمی کر دی ہے۔ جنوری سے ہی ’ہنڈا‘ نے اپنی یومیہ پیداوار کو 220 سے کم کرکے 160 گاڑیوں تک کردیا تھا۔ ہنڈا کے ڈیلروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال جاپانی کار اسمبل کرنے والوں کے لئے بالکل خراب ہوگئی ہے جو ایک سال قبل 2 شفٹوں میں گاڑیوں کی پیداوار کر رہے تھے۔
ان کے مطابق حکومت نے بجٹ 20-2019ء میں ایف ای ڈی کی نئی شرح کے ساتھ درآمدی پارٹس پر 5 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی اور اضافی ٹیکسوں جیسے اقدامات سے آٹو انڈسٹری کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سمیت ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے کاروں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان آٹو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ختم ہونے والے مالی سال کے 11 ماہ میں ہنڈا سوک اور ہنڈا سٹی کی فروخت 39 ہزار 869 سے کم ہوکر 37 ہزار 83 یونٹ ہوگئی تھی جبکہ ہنڈا بی آر وی کی فروخت 7 ہزار 999 سے 4 ہزار 593 یونٹ رہ گئی تھی۔
علاوہ ازیں انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ انہوں نے اس ماہ 8 روز کے لئے گاڑیاں نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پہلے ہی ہفتے میں 2 چھٹیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جولائی میں ہمارے پلانٹ کم از کم 10 روز کے لئے بند رہیں گے۔‘
یہی صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ماربل فیکٹریوں کی ہے۔
ادھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو منظور شدہ 6 ارب ڈالرقرض کی پہلی قسط جاری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کھل کر کہہ دیا ہے کہ حکومت نے ہماری مشاورت سے بجٹ تیار کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ساتھ قرض کے معاہدے کے حوالے سے 96 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے تمام یقین دہانیوں پر عمل درآمد کیا اور پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا وعدہ پورا کیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے یقین دہائی کروائی ہے کہ بجلی اور گیس کی مکمل لاگت صارفین سے وصول کی جائے گی اور پیٹرولیم مصنوعات پرجی ایس ٹی17 فیصد سے کم نہیں کیا جائے گا۔
یہ شاید پہلی دفعہ ہوا کہ قومی بجٹ بارے آئی ایم ایف نے کھل کر واضح کیا ہے کہ یہ تو ہم نے تیار کیا ہے۔
تحریک انصاف حکومت تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا ان کے خلاف تحریری بیانات اور ویڈیو پیغامات سے بھرا ہوا ہے۔ گیلپ کے مطابق بجٹ کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں 13فیصد کمی آئی ہے اور وہ 58 فیصد سے 45 فیصد پرجا گری ہے۔ یعنی اس وقت آبادی کی اکثریت اس سے ناخوش ہے۔
حکومت بار بار ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ ماضی میں حکمران چور تھے اس لئے معاشی بحران ہے۔ یہ رٹ اب کتنی بار لگائی جا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مشوروں پر تیزی سے عمل درآمد نے عوام پر تیز تر ہونے والی مہنگائی کا نیا بوجھ لاد دیا ہے اور لوگ یہ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستانی روپے کی قیمت گرانے کا فیصلہ انہیں سب سے مہنگا پڑے گا۔ اس کی وجہ سے درآمدات کم ہو گئی ہیں اور برآمدات میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوا۔ البتہ جو بھی امپورٹڈ سٹاک تھا اسے تاجروں اور کاروباری حضرات کو فوراً مہنگا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
اس کے علاوہ بجٹ میں چینی مہنگی ہونا بھی عوام کو ہضم نہیں ہو رہا۔ کیونکہ سب کے سامنے ہے کہ عمران خان کو پیسے تو جہانگیر ترین دیتا رہا ہے جو چینی کی ملوں کا مالک ہے۔ اب عمران خان اسے چینی مہنگی کر کے وہ رقم واپس کر رہا ہے۔
حکومت ایک بڑی پریشانی کا مزید شکار ہونے والی ہے۔ اسے اندازہ نہیں کہ ہڑتالوں سے تاجروں کو تو وقتی نقصان ہو گا مگر اس کے ریوینیو میں شدید کمی ہو سکتی ہے۔ حکومت کا یہ اندازہ کہ اس سال وہ 5550 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کر لیں گے ایک خواب بن کے رہ جائے گا۔