سوچ بچار

خواتین اور ورلڈ کپ

فاروق سلہریا

آج کل ورلڈ کپ کا نام آتے ہی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوب ایشیا میں دھیان برطانیہ اور کرکٹ کی طرف چلا جاتا ہے۔ اتفاق سے جون جولائی کے مہینوں میں کرکٹ ورلڈ کپ کے علاوہ فرانس میں فٹ بال کا عالمی کپ بھی کھیلا جا رہا تھا۔پاکستان کے شاید ہی کسی ٹی وی چینل میں اس فٹ بال ورلڈ کپ کی خبروں کو نمایاں جگہ دی گئی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان یا جنوب ایشیا میں لوگ فٹ بال میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بلا شبہ کرکٹ جنوبی ایشیا بشمول پاکستان میں بے حد مقبول ہے۔ لیکن فٹ بال کے دیوانوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔

نجی محفلوں میں بھی اس فٹ بال ورلڈ کپ کا تذکرہ شاید ہی ہوا ہو۔ وجہ؟

فرانس میں کھیلا جانے والا فٹ بال ورلڈ کپ عورتوں کا ورلڈ کپ تھا۔ اگر کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل آنے والے اتوار کو کھیلا جائے گا تو ویمن فٹ بال ورلڈ کپ کا فائنل گزشتہ اتوار کو کھیلا گیا۔ ہالینڈ کو دو گول سے شکست دے کر امریکہ پھر سے چیمپئین بن گیا۔

الیگزینڈرا اکاسیو کورٹز

دلچسپ بات ہے کہ جس ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے کے لئے عمران خان بے قرار ہیں اسے اس ورلڈ چیمپئین ٹیم نے ملنے سے انکار کر دیاہے۔ ہاں البتہ ٹیم نے امریکی کانگریس کی سوشلسٹ رکن الیگزینڈرا اکاسیو کورٹز (Alexandria Ocasio-Cortez) کی دعوتِ ملاقات قبول کر لی ہے۔

فائنل میں دو گول کرنے اور گولڈن بال حاصل کرنے والی (یعنی پورے ٹورنامنٹ کی بہترین کھلاڑی) امریکی فٹ بالر میگن راپینو (Megan Rapinoe) کا ذکر یہاں ضروری ہے کیونکہ وہ صدر ٹرمپ کے ٹویٹس کا موضوع بن چکی تھیں۔ عالمی کپ سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ٹیم ورلڈ کپ جیت کر امریکی صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دعوت قبول نہیں کرے گی۔ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں میگن کو طعنہ دیا کہ پہلے ورلڈ کپ جیتو پھر باتیں کرنا۔

ورلڈ کپ جیت کر جب ٹیم واپس امریکہ پہنچی تو صحافیوں نے میگن کو ان کا ٹرمپ سے نہ ملنے کا وعدہ یاد دلایا۔ میگن نے اپنا عزم دہرایا اور پریس کو بتایا کہ وہ ہی نہیں بلکہ کوئی ٹیم ممبر بھی وائٹ ہاؤس جانے کو تیار نہیں۔

یہی نہیں انہوں نے ٹرمپ کی نسل پرستانہ سیاست اور ہم جنس پرست لوگوں بارے ان کی سوچ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

یاد رہے میگن پہلی بار اپنے ترقی پسندانہ موقف کی وجہ سے خبروں میں نہیں ہیں۔ نہ صرف اس ورلڈ کپ بلکہ پچھلے عالمی کپ میں بھی انہوں نے میچ شروع ہونے سے پہلے گایا جانے والا امریکی قومی ترانہ گانے سے انکار کیا تھا۔ ترانے کے دوران وہ خاموش کھڑی رہتی ہیں۔ یہ ایک احتجاج ہے امریکہ میں ہونے والی اندرونی نا انصافیوں کے خلاف جس کا شکار بالخصوص سیاہ فام اور بھوری جلد والے لوگ بنتے ہیں۔

میگن اس مہم کا بھی حصہ ہیں جس کا مقصد عورت اور مرد کھلاڑیوں کو برابر تنخواہ دلانا ہے۔ یاد رہے سویڈن جیسے ملکوں میں بھی، جہاں عورت کی برابری کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے، فٹ بال بورڈمرد کھلاڑیوں کو خواتین فٹ بالرز سے زیادہ تنخواہ دیتا ہے۔

میگن راپینو

کیا کبھی کسی کرکٹر نے میگن جیسے کردار کا مظاہرہ کیا؟ کم از کم میرے علم میں نہیں۔ ہاں البتہ بہت سے کرکٹرز بشمول پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کو ہم نے وقت کے بد ترین آمر ضیاالحق سے ہاتھ ملاتے ضرور دیکھا۔

اسے اتفاق تو نہیں کہا جا سکتا کہ ضیاالحق کو طالبان کا گاڈ فادر کہا جاتا ہے اور عمران خان کو طالبان خان۔ اس وقت طالبان قطر میں اپنے پرانے آقا سے صلح صفائی میں مصروف ہیں۔ اس ممکنہ صلح سے افغانستان کی خواتین کھلاڑی بہت پریشان ہیں۔ ان میں سمعیہ غلامی بھی شامل ہیں۔ وہ اگلے سال ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں اپنے ملک کے لئے مارشل آرٹس کے شعبے میں میڈل جیتنا چاہتی ہیں۔ وہ مردوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر طالبان انہیں یوں ٹریننگ کرتے دیکھ لیں تو گولی مار دیں۔ ان کی ساتھی کھلاڑیوں کو ڈر ہے کہ اگر طالبان حکومت میں واپس آ گئے تو ان پر کھیل کے میدان ایک مرتبہ پھر حرام ہو جائیں گے۔

افغانستان کی خواتین نے پہلی بار 1936ء میں اولمپکس میں حصہ لیا تھا۔ پھر طالبان کے دور میں تو اولمپک کمیٹی نے ہی افغانستان پر پابندی لگا دی۔ جس اولمپک اسٹیڈیم میں سمعیہ غلامی ٹریننگ کرتی ہیں اس کے باہر ایک فٹ بال گراؤنڈ ہے جہاں طالبان لوگوں کے ہاتھ کاٹتے تھے اور موت کی سزا دیتے تھے۔

یادش بخیر! غالباً طالبان کا امیج بہتر کرنے کے لئے مشرف آمریت کا دور آتے ہی پاکستانی فٹ بالرز کوقندھار بھیجا گیا۔ فٹ بالرز کا تعلق چمن کے ایک کلب سے تھا۔ افغان ٹیم سے میچ کھیلنے جب پاکستانی فٹ بالر نیکریں پہنے اسٹیڈیم میں اترے تو پاکستانی ٹیم کا کافرانہ لباس دیکھ کر طالبان طیش میں آ گئے۔ سزا کے طور پر پاکستانی کھلاڑیوں کے سر مونڈھ دئیے گئے اور انہیں ایک رات جیل میں کاٹنی پڑی۔ اُن دنوں پاکستانی پریس یا مڈل کلاس کو افغانوں کی کسی قسم کی ”حرام خوری“ محسوس نہیں ہوئی۔

افغانستان میں خواتین خوفزدہ ہیں کہ طالبان واپس آ گئے تو ان پر کھیلوں کو حرام قرار دے دیں گے۔

معلوم نہیں پاکستان آئندہ کب اپنی کسی قومی ٹیم کو کابل بھیجے گا مگر کابل کے اولمپک سٹیڈیم میں ٹریننگ کرتی خواتین کے لئے کھیل فقط کھیل نہیں مزاحمت بھی ہے۔ یہ مزاحمت وہ فقط طالبان کے خلاف نہیں کر رہیں۔ یہ مزاحمت انہیں اس پدر سری سے بھی کرنی پڑتی ہے جو ہر وقت تلوار بن کر ان کے سر پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ کئی ایسی کھلاڑی ہیں جو گھر سے چوری کھیل کے میدان میں پہنچتی ہیں۔

اگر مغربی ممالک میں خواتین کھلاڑی برابر تنخواہ کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں تو اکثر مسلمان ممالک میں عورتوں کو ابھی برابر کی سطح پر کھیلنے کا ہی حق نہیں ملا۔ عورتوں کے حالیہ فٹ بال ورلڈ کپ میں ایک بھی ٹیم کسی مسلمان ملک سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ کھیلنے کا یہ بنیادی حق بیٹھے بٹھائے نہیں ملے گا۔ اس کے لئے عورتوں اور مردوں کو مل کر جدوجہد کرنی ہو گی۔ مغرب میں بھی لمبا عرصہ عورت کو کھیلوں میں حصہ لینے کی بہت ہی محدود آزادی تھی۔

عورتوں نے کھیلوں میں شمولیت کی آزادی کیسے حاصل کی؟

کھیل کسی نہ کسی شکل میں انسانی تہذیب کا ہزاروں سال سے حصہ ہے مگر منظم انداز میں جدید کھیل کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں یورپ کے اندر پڑی۔ جدید کھیل کا تعلق قومی ریاست کے وجود میں آنے اور کالونیل ازم سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لئے اس موضوع پر فی الحال بات ممکن نہ ہو گی۔

زیر بحث موضوع کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ ماضی میں کھیلنے کا موقع امیر عورتوں کو ہی کسی حد تک میسر تھا۔ کھیل بھی کون سے؟ ٹینس اور گالف۔ ٹینس کھیلنا تو بالخصوص تفریح سے زیادہ تکلیف کا باعث تھا کیونکہ عورتوں پر واجب تھا کہ وہ شمیض (کارسٹ) پہن کر کھیلیں۔ اس دور کی شمیض پہن کو چلنا دشوار تھا کھیلنا تو دور کی بات۔ یہ 1887 ء کی بات ہے کہ پندرہ سالہ لوٹی ڈاڈ کو شمیض کی بجائے سکول یونیفارم میں ومبلڈن کھیلنے کی استثنا حاصل ہوئی۔ انہوں نے ومبلڈن جیت لی۔جیتنے کے بعد انہوں نے استدعا کی کہ خواتین پر شمیض کی شرط ختم کی جائے کیونکہ اس سے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔

لوٹی ڈاڈ

جب عورتوں کے لئے ووٹ کی تحریک نے زور پکڑا تو ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت بھی ہونی چاہئے۔ اس مطالبے کے جواب میں رجعتی حلقے بھی میدان میں آ گئے۔ ’سائنس‘کا سہارا بھی لیا گیا۔ ’ثابت‘ کیا گیا کہ کھیلوں میں حصہ لینے سے عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں۔ وہ شہوانیت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

عورتوں نے بھی ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ انہی دنوں سائیکل بھی ایجاد ہو گیا اور اس کا ستعمال بڑھنے لگا۔ پھر پہلی عالمی جنگ اور صنعت کاری کی وجہ سے عورتوں نے گھر سے نکل کر فیکٹری اور دفتر جانا شروع کر دیا۔ سائیکل نے علاوہ اور چیزوں کے ایک کام یہ بھی کیا کہ روایتی لباس یعنی شمیض کا خاتمہ کر دیا۔ شمیض پہن کر سائیکل چلانا نا ممکن سی بات تھی۔ ویسے سائیکل کے بارے میں بھی یہ ’سائنسی‘ دلیل دی گئی کہ اس سے عورتیں بانجھ پن کا شکار ہو جاتی ہیں۔

ادھر فیمینسٹ تحریک یہ مطالبہ کرتی رہی کہ عورتوں کو کھیلنے کا موقع ملنا چاہئے۔ محنت کش طبقے کی عورتوں کے لئے کھیل میں حصہ لینا ایک طرح سے آزادی کا اظہار بن گیا تھا۔ ان سب باتوں سے بھی اہم شاید یہ بات تھی کہ جب عورتوں کو کھیلوں کے مقابلے میں حصہ لینے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے ثابت کیا کہ وہ تو مردوں سے بھی بہتر صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1924 ء میں سبل بائیر (Sybil Bauer)نے بیک اسٹروک تیراکی میں مردوں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔

دوسری عالمی جنگ نے سماجی حالات کو بالکل بدل دیا اور پھر ساٹھ کی دہائی میں جب حقوقِ نسوں کی تحریک کی دوسری لہر چلی تو مغرب کی حد تک کھیل پر عورتوں کا حق عورتوں نے منوا لیا تھا۔

مغربی دنیا سے باہر جہاں جہاں بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہوئیں وہاں بھی عورتوں نے کھیل میں بھر پور حصہ لینا شروع کر دیا۔ آج چین اور کیوبا یا ویت نام اور کوریا کی خواتین مغربی ممالک کی خواتین کا مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں سرمایہ داری کے خاتمے سے پدر شاہی پر بھی ضرب لگی۔ کچھ دیگر عناصر بھی شامل تھے مثلاً سوشلزم عورت اور مرد کی برابری کی بات کرتا آیا ہے۔ عورتوں کی اپنی جدوجہد بھی ایک اہم عنصر رہا۔

قصہ مختصر‘ ایسے ممالک جہاں سرمایہ داری کا خاتمہ ہوا وہاں تیزی سے عورتیں کھیل کے میدان میں متحرک ہوئیں۔ کھیل کے میدان میں جو حقوق سامراجی اور امیر مغربی ممالک میں عورتوں نے دہائیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیے سوشلسٹ ممالک میں عورتوں نے ایک جست میں حاصل کر لیے۔

پاکستان میں بھی خواتین کھلاڑیوں نے زبردست جدوجہد کی ہے۔ گو صورتحال ابھی افغانستان سے زیادہ مختلف نہیں۔ کھیل پاکستانی عورت کے لئے بھی مزاحمتی عمل سے کم نہیں مگر وہ دن گئے کہ جب مذہب، روایت اور غیرت کے نام پر خواتین کی ہاکی ٹیم کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ ہاں مگر ایک لمبی جدوجہد باقی ہے۔ عورتوں کی اکثریت اور کھیل کے میدانوں میں ابھی بھی ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ ترقی پسند تحریک کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ اس خلیج کو پاٹنے میں خواتین کا ساتھ دے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔