شاعری

چیخ کا وزٹینگ کارڈ

مسعود قمر

وہ
اکٹھے ہوتے تھے
شہر کے مخصوص بغیر دروازوں والے
چائے خانوں میں
اور
ان میں لگے پنکھوں کے زوں زوں
کرتے پروں کو گننے کی کوشش کرتے
تو
بیس اور تیس کا کبھی نہ ختم ہونے والا جھگڑا
اپنے پنکھ پھیلاتا
مڑے تڑے صفحات کے دونوں طرف
لکھا جانے والا یہ تجرید بھرا افسانہ
ابھی تک بے انت ہے
وجودیت، لایعنیت، جدید نظم
مذہب بطور افیون، رد انقلاب سے بچاو
اور
سرمائے کے ایک تجوری میں
اکٹھے ہونے کے اسباب پر
بحث کرتے کرتے
تمباکو کی تیز کڑواہٹ
اور
چائے کا کسیلا پن بڑھتا
تو
ان میں سے
کچھ غائب ہو جاتے
اور…اور ملنے لگتے
شہر کے کسی تہہ خانے میں
جہاں وہ
چھپا دیتے اپنے جوتے
بغیر کسیلی چائے
اور
بتمباکو کی کڑواہٹ کے
کْھسر پْھسرپہ گزارا کرتے
اور…
اور پھر ان میں سے
کچھ غائب کر دیے جاتے

جو بالآخر پہچانتے ایک دوسرے کو
ساتھ والی بیرک سے
چیختی آخری چیخ سن کر
بیرک سے نکلتے خون میں سونگ لیتے
کسیلی چائے کا ذائقہ
اور
تیز تمباکو کی بو

یہ بہت بہت بہت
سالوں پہلے کی بات ہے
اب
کافی ہاؤسوں میں
ائیر کنڈیشن لگنے سے
کافی ہاؤسوں کے
بند دروازے بند رہتے ہیں
ہر قسم کی ذائقہ دار کافی کی بھاپ
اور
اعلی قسم کے سگار کا دھواں
بیٹھے لوگوں کے سروں پہ
سایہ کیے رکھتا ہے
شہر کے سارے تہ خانے
جعلی شراب بنانے
اور
نمازیوں کیلئے ٹوپیاں بنانے کی
فیکٹریوں میں تبدیل ہوگئے ہیں
شہر کی ساری بیرکیں
ایوان اقتدار میں
شفٹ کر دی گئی ہیں

Masood Qamar
+ posts

مسعود قمر کا تعلق لائل پور سے ہے اور پاکستان میں بطور صحافی کام کیا۔ وہ 1983ء سے سویڈن میں مقیم ہیں ۔