ربیعہ باجوہ
سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کے معاملے پر معروف آئینی ماہر حامد خان کا موقف، جس پر تمام وکلا تنظیمیں متفق ہیں، بالکل درست ہے کہ سینیارٹی کے اصول کو نطرانداز کرنا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ جب بھی یہ اصول پامال کیا گیا، اس کے نتائج منفی ہی نکلے۔
گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو نظرانداز کر کے جسٹس محمد علی مظہر جو کہ سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر تھے، انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
دریں اثنا، لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس عائشہ اے ملک، جو سینیارٹی کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہیں، کی بطور سپریم کورٹ جج تقرر ی کا امکان ہے۔
سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کر کے جسٹس عائشہ ملک کی بطور جج سپریم کورٹ میں تقرری کو صنفی ترقی یا برابری کی بنیادوں کا جواز فراہم کرنا درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ بطور جج لاہور ہائی کورٹ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں تو تقریباً 3 سال بعد وہ لاہور ہائی کورٹ کی پہلی چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ کی پہلی جج ہوں گی۔ موجودہ صورت حال میں ان کے اس سفر کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے جبکہ معمول کے مطابق، اپنے وقت پر، ان کا سپریم کورٹ میں جج بننا اصل اعزاز کی بات ہو گی۔
ماضی میں عدلیہ کے حوالے سے صنفی تعصب یا جینڈر بائیس کی مثال جسٹس فخرالنسا کھو کھر تھیں جنھیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کے اعزار سے محروم رکھا گیا۔ ان کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ، لاہور ہائی کورٹ کے جج چوہدری افتخار حسین، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، کو سینیارٹی کے اصول پر سپریم کورٹ نہ بھیج کے مشرف کے حق میں فیصلے لئے گئے۔
ان فیصلوں میں ایک یہ شرمناک فیصلہ بھی شامل تھا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ وردی والا صدر نہی ہو سکتا۔ جسٹس افتخار حسین چودھری کے سپریم کورٹ نہ بھیجنے جانے سے جسٹس فخر النساء کھوکھر 2004ء میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئیں۔ جسٹس فخر النسا کھوکھر کے خلاف لابنگ اتنی شرمناک تھی کہ نہ صرف انھیں چیف جسٹس بننے کے حق سے محروم رکھا گیا بلکہ سینئر ججوں نے ان سے بات کرنا تک چھوڑ دی۔ ان کی حق تلفی کرنے والے چیف جسٹس چوہدری افتخار نے ان سے عدالتی کام لینا بند کر دیا۔
اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کی جج خالدہ رشید خان کو بھی پشاور ہائی کورٹ کی پہلی چیف جسٹس بنانے کی بجائے ملک سے باہر غالباً رونڈا (کریمنل ٹربیونل) کی جج مقرر کیا دیا گیا۔
اگر عدالتی نظام میں خواتین سے امتیازی سلوک کی بات کی جائے تو پریشان کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ خواتین وکلا کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ان کے لئے کام کرنے کے مواقع بہت کم ہیں لیکن کبھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نہ عدلیہ نے اس حوالے سے کبھی اپنے اختیارات کا استعمال کیاہے۔
اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں 49 جج ہیں۔ ان میں صرف دو خواتین جج ہیں۔ ان دو ججوں میں جسٹس عالیہ نیلم بھی شامل ہیں اور وہ بھی بہت قابل جج ہیں۔ ان کے بھی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی جج بننے کے امکانات ہیں لیکن سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کر کے اور صنفی ترقی کے نام پر ایک خاتون جج کو سپریم کورٹ لیجایا جانا جہاں ایک طرف سنیارٹی کے اصول سے انحراف ہے وہاں دوسری طرف یہ عمل غیر ضروی تفریق کا سبب بھی ہے جو عدالتی نظام سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث نہیں ہو گا۔