کابل (یاسمین افغان) افغانستان کے شہر ہرات میں درجنوں خواتین کارکنوں، یونیورسٹی کی طالبات اور سرکاری ملازمین نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ خواتین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور نعرے لگا رہی تھیں۔
’ڈرومت، ہم ساتھ ہیں‘، ’خواتین کے بغیر کوئی حکومت نہیں چل سکتی‘، ’حکومت سازی میں خواتین کو شامل کیا جائے‘ اور ’تعلیم اور کام ہمارا حق ہے‘ جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔
احتجاج کرنے والی خواتین نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ افغان خواتین کو نہ بھولیں اور گزشتہ 20 سالوں کی کامیابیوں کو محفوظ کیا جائے۔
احتجاج کرنے والی خواتین کے پاس ایک اعلامیہ بھی تھا جس میں لکھاتھا کہ خواتین کی تعلیمی، سیاسی اور معاشی محرومی ظلم، تخریب کاری اور تشدد کی ایک علامت ہے، چاہے ہمیں ختم بھی کر دیا جائے تب بھی ہم کسی ایسے نظام کو قبول نہیں کر سکتے جس میں ہمارے حقوق کو نظر انداز کیا جائے۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ ہمارا مطالبہ ہے۔ ہم بین الاقوامی برادری کی حمایت اور نگرانی چاہتے ہیں۔ ہم حکومت کے اہم سیاسی فیصلوں میں شمولیت چاہتے ہیں۔ ہم اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں اور تعلیم کے تمام حقوق چاہتے ہیں، ہم آزادی اور سلامتی کا حق چاہتے ہیں، تحفظ میں ہماری نفسیاتی سلامتی، کام کرنے کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اورتعلیم کا تحفظ شامل ہے۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد یہ پہلا احتجاج نہیں ہے۔ سقوط کابل کے بعد بھی خواتین کے ایک گروپ نے کابل میں احتجاج کیا تھا۔ ہرات کی یونیورسٹی کی طالبات اور پروفیسرز نے سب سے پہلے شہر کے سقوط کے بعد ہرات یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
یاد رہے کہ طالبا ن نے بارہا کہا ہے کہ وہ خواتین کو کام کرنے کی اجازت دینگے اور تعلیم کا حق بھی دینگے لیکن خواتین فیصلہ سازی کے عہدوں پر نہیں رہ سکتی ہیں، انہوں نے مخلوط تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور کہا ہے کہ تاحال صرف جماعت ششم تک کی لڑکیاں ہی سکول جا سکتی ہیں۔ طالبان نے یہ بھی کہا ہے کہ یونیورسٹی طلبہ صرف اس وقت ہی یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں جب ان کی کلاسیں مرد طالبعلموں سے علیحدہ ہونگی اور صرف خواتین اور بوڑھے اساتذہ ہی انہیں پڑھا سکیں گے۔