محمد شبیر
یوم مئی پر بھٹہ مزدور اپنی داستان سنانا چاہتے ہیں۔
بھٹہ مزدور ایک ہنرمند ورکر ہے کیوں کہ مٹی کی اینٹ بنانا ایک ہنر مند مزدور کا ہی کام ہے۔ پنجاب بھر میں 5 ہزار سے زائد بھٹہ جات ہیں جن پر تقریباً پانچ لاکھ خاندان کام کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر بنیادی آئینی اور قانونی حقوق سے محروم ہیں۔
پنجاب بھر میں لیبر قوانین کا فقدان ہے۔ اگر کوئی قانون بنا ہے تو اس میں بھٹہ مالکان کے مفادات کو ترجیح دی گئی ہے۔
پنجاب میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کا نام ہے بانڈڈ لیبر ابولیشن ایکٹ 1992ء۔ جس میں پیشگی سسٹم کو مکمل طور پر ختم کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کی ایک ذیلی شق نمبر 11 اور 12 کے تحت اگر کوئی بھٹہ مالک پیشگی دے کر کام کروائے گا تو اس کے خلاف پولیس رپورٹ درج کی جائے گی۔ جس پر بھٹہ مالک کو 5 ہزار روپے سے لے کے پچاس ہزار روپے تک جرمانہ اور 6 ماہ قید ہوسکتی ہے۔ عدالت دونوں سزائیں بیک وقت بھی دے سکتی ہے۔
اس سے قبل جبری مشقت اور پیشگی سسٹم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1988ء میں فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف مالکان شریعت کورٹ چلے گئے تھے مگر شریعت کورٹ پاکستان نے بھی سولہ سال بعد 2005ء میں بھٹہ مزدوروں کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا۔
بھٹہ مالک آج بھی پیشگی دے کر کام کروانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کیوں کہ پیشگی دے کر مزدور کو خرید لیا جاتا ہے۔ پیشگی پوری ادا بھی ہو جائے تو بھی کام اپنی مرضی سے کرواتے رہتے ہیں۔ اور مزدوری بھی اپنی مرضی کی دیتے ہیں۔
موجودہ بانڈڈ لیبر ایکٹ میں بہت خامیاں موجود ہیں۔ جیسے کہ کسی بھٹہ مالک کے خلاف کوئی مزدور ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو اس بھٹہ مالک کی دوسرے دن ہی ضمانت ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ بانڈڈ لیبر ایکٹ 1992ء کی شق نمبر 11۔ 12 قابل ضمانت ہے۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ بھٹہ مالکان کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ بھٹہ مالکان نے جنگل کا قانون بنایا ہوا ہے۔ دوسری طرف پولیس بھٹہ مالکان کے رشتہ دار کا رول ادا کرتی ہے۔ اگر کوئی بھٹہ مزدور کم اجرت میں کام کرنے سے انکاری ہو جائے تو پھر بھٹہ مالکان پولیس کے ذریعے جھوٹے مقدمات جن میں ڈکیتی، چوری اور امانت میں خیانت جیسی دفعات ہوتی ہیں، لگا کر تھانے میں بند کر وا دیتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں پنجاب بھر میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی میں ایک بھٹہ مالک نے اس لئے بھٹہ مزدور پر ایف آئی آر کٹوا دی کہ اس نے کم اجرت پر کام کرنے سے انکار کردیا تھا تو بھٹہ مالک نے اس مزدور پر 17 لاکھ روپے امانت میں خیانت کا پرچہ درج کروا دیا۔ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
سوشل سیکورٹی کارڈ اور بڑھاپا پنشن کارڈ کا قانون بھی فائلوں میں ہی دفن ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھٹہ مزدوروں کی یونینیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان بھٹہ مزدور یونین رجسٹرڈ (پنجاب) جن اضلاع میں کام کرتی ہے وہاں مزدوروں کو اچھی اجرتیں ملتی ہیں۔ بھٹہ مالکان کا جبر بھی کم ہے۔
پاکستان بھٹہ مزدور یونین اب تک ضلع وہاڑی، خانیوال، گجرات، گجرانوالہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، فیصل آباد، شیخوپورہ، قصور، لاہور، سرگودھا، ساہیوال اور ضلع پاکپتن سے
تقریباً 600 بھٹہ مزدور خاندانوں کو آزاد کرواچکی ہے۔ اس کے علاوہ یونین بھٹہ مزدوروں کو کم دی گئی مزدوری کے بقایا جات تقریباً 12 لاکھ روپے دلواچکی ہے اور بقایا جات کے کئی کیس نو اضلاع میں زیرسماعت ہیں۔ جبکہ 24 ڈگریاں ریکوری کے مراحل میں ہیں۔
پاکستان بھٹہ مزدور یونین حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ لیبر قوانین کو بہتر بنایا جائے اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سے کرپٹ افسران کو فارغ کیا جائے۔ تمام بھٹہ مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کارڈ اور بڑھاپا پنشن کارڈ دلوائے جائیں۔ انڈر پیمنٹ ویجز ایکٹ 1936ء کو مزید بہتر بنایا جائے۔