پاکستان

میڈیا مالکان اور اینکروں کو آزادی صحافت سے نہیں پیسے سے غرض ہے!

شفیق احمد

چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے دفتر سے گھر جانے کے لیے کریم ٹیکسی بک کروائی۔ کریم کیپٹن کچھ باتونی واقع ہوا تھا۔ جب گفتگو شروع ہوئی تو کہنے لگا: ’میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔‘ اور میرے جواب دینے سے پہلے ہی چلایا:’آپ صحافی تو نہیں؟‘

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’میں لکھتا بھی ہوں اور کبھی کبھی ٹی وی چینلوں پر بھی آتا ہوں۔‘

بطور صحافی میرے لئے کریم کیپٹن کا اگلا جملہ حیران کن بھی تھا اور دل شکن بھی۔
”چند مہینے پہلے تک میں بھی بطور صحافی ایک بڑے ادارے سے منسلک تھا لیکن پھر ایک دن کے نوٹس پرمجھے اور میرے کئی ساتھیوں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا…“

اس نے بتایا: ”بچے سکول جاتے ہیں۔ گھر کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے اور بجلی کے بل بھی۔ لہٰذااورکوئی راستہ نہیں تھا سوائے ٹیکسی چلانے کے۔“ اس نے بتایا کہ اس جیسے اور صحافی بھی ہیں جو اب ٹیکسی چلانے پر مجبور ہیں۔ ”ایک صحافی تو کریم کی موٹر بائیک بھی چلاتا ہے۔“

ایسا نہیں کہ میں ٹیکسی چلانے کو اخبار کی مزدوری سے کسی بھی طرح کمتر خیال کرتا ہوں۔ محنت اپنی ہر شکل میں مقدس ہے۔ لیکن مندرجہ بالا واقعہ پاکستان میں میڈیا کے موجودہ بحران کی وہ شکل پیش کرنے کی ایک کوشش تھی جس کے بارے میں میڈیا مالکان اور سیاستدان بات نہیں کرتے۔

یہ درست ہے کہ میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ نظر آ رہا ہے جس پر واویلا بالکل بجا ہے مگر بے روزگار ہوتے ہوئے صحافی ماسوائے خودمیڈیا کارکنوں کے کسی کو دکھائی نہیں دے رہے۔

لگ بھگ چھ ماہ پہلے حکومت اورمیڈیامالکان کی اشتہارات اور مالی امور کے حوالے سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد سے صحافتی صنعت سے وابستہ افراد کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اس ملاقات کے فوراً بعد تمام ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے مالکان نے بغیر کسی توقف کے ہزاروں صحافیوں اوردیگر میڈیا کارکنان کو پاکستان بھر میں نوکریوں سے فارغ کر دیا۔ کم از کم تین ہزار صحافی بے روزگار ہوئے۔ ٹی وی اور اخبار سے جڑے دیگر کارکنوں کی تعداد شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ جن کو نہیں نکالا گیا ان کی تنخواہ 20 سے 40 فیصد تک کم کر دی گئی ہے۔

وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ حکومت اشتہار نہیں دے رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اشتہار میڈیا کی آمدن کا ایک معمولی حصہ ہیں۔

بظاہر معاملات اتنے خراب نہیں جتنے ان مالکان نے ظاہر کیے ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو نجی شعبے سے ملنے والے اشتہار اسی طرح سے مل رہے ہیں جیسے پہلے ملا کرتے تھے۔ ہاں سرکاری اشتہارات میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ایک سال میں یہ کمی لیکن صرف سات فیصد ہے۔

اس دوران بتدریج صحافیوں کی آواز دبانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ غیر اعلانیہ سینسر شپ میں اضافہ ہو گیا۔ میڈیا مالکان اور کچھ اینکر آزادی صحافت کے علمبردار بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ لوگ لیکن کارکن صحافیوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ صحافی شہری بھی ہوتے ہیں۔ وہ جمہوری آزادیوں کے لئے جدوجہد کرتے آئے ہیں مگر دونوں کی جدوجہد میں فرق ہے۔

آزادی صحافت اور میڈیا مالکان

صحافتی صنعت پر زوال کچھ صحافی برادری کے شامت اعمال کے باعث بھی ہے اور کچھ حکومتی ادارے بھی اس کا کارن ہیں۔کچھ ادارے صحافتی آزادی کو ملک کے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔جب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ صحافی اپنے ملک کی مثبت تصویر دنیا کو دکھائیں، تب سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے مالکان نے صحافتی صنعت سے وابستہ افراد کے لیے زندگیاں تنگ کر دی ہیں۔

ادھر گزشتہ کئی مہینوں سے روزگار سے فارغ ہونے والوں کو دوبارہ روزگار دلوانے، تنخواہوں کی ماہانہ ادائیگی میں تاخیر اور صحافیوں کی آواز کو دبانے کے خلاف بہت سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ اس احتجاج کو ملکی اورعالمی سطح پر منظم کرنے کا عہد بھی کیا گیا ہے۔

صحافیوں کے احتجاجی کیمپوں سے دو طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ایک طرف صحافت سے وابستہ وہ عام کارکن ہیں جن کا معاشی قتل کیا گیاہے۔ دوسری طرف بھاری تنخواہیں لینے والے اینکر ہیں جو صحافت پر قدغن اور غیر اعلانیہ سینسرشپ تک احتجاج کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی وی اینکروں اورمیڈیا مالکان کا مسئلہ بظاہر ایک ہے: غیر اعلانیہ سینسرشپ۔

اگر ہم غور سے مطالعہ کریں اور ٹی وی چینل دیکھیں تو آپ کو مختلف صحافتی اداروں کی ’ادارتی پالیسی‘ اْن کے اینکروں کی زبانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ان اینکروں کی آواز کو دبانے کا مطلب یہ ہے کہ ٹی وی مالکان کی پالیسی کو بھی دبایا جا رہا ہے۔ یہ وہ پالیسی ہے جس سے انہوں نے ہر دور میں خوب نفع کمایا۔

عام ٹی وی کارکن اور اخبارات سے وابستہ افراد کا سب سے بڑامسئلہ غیر اعلانیہ سینسرشپ نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ ان کا معاشی قتل ہے۔ یہ سب، سب سے پہلے روزگار اور روزگار کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مہینے کے مہینے تنخواہ لینا چاہتے ہیں تاکہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

جب اینکر اور ٹی وی مالکان آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی ریٹنگ گر رہی ہے۔ ان کو آزادی افکار سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اپنے مفادات کے لئے سب بڑے میڈیا مالکان آمریتوں کی گود میں بیٹھتے رہے ہیں۔ کچھ میڈیا مالکان اور اینکر پرسنز تو نکلے ہی آمریت کی گود سے ہیں۔

یہ اینکر بھی صحافیوں کے مظاہروں میں آتے ہیں اور اپنی بات کر کے چلے جاتے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے کئی بار مختلف سیاسی نمائندوں کو بھی دعوت دی۔ زیادہ تر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے رہنما آئے اور انہوں نے غیر اعلانیہ سینسرشپ کو جمہوریت سے جوڑ کر اس کو جمہوریت کے خلاف حملہ قرار دیا مگر عام ورکر کی کسی نے بھی بات نہیں کی۔

Shafique Ahmed
+ posts

شفیق احمد عرصہ تیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ فرنٹیئر پوسٹ، ڈان اور ہیرلڈ جیسے اخبارات کے علاوہ جیو اور انڈس جیسے ٹی وی چینلوں کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ نو سال تک وہ بھارتی چینل ’ٹائمز ناؤ‘ کے پاکستان میں نمائندہ تھے۔ وہ بے شمار عالمی چینلوں اور اخبارات کے ساتھ فری لانسر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان اور بھارت کے بارے میں ان کو ماہر مانا جاتا ہے۔ اکثر بطور تجزیہ نگار مختلف چینلوں پر بھی اپنی رائے دیتے ہیں۔