فاروق سلہریا
بائیس جولائی کو دائیں بازو کے بدنام ترین امریکی چینل ”فوکس نیوز“ کو ایک انٹرویو میں عمران خان نے یہ حیران کن دعویٰ کر دیا کہ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں ’آئی ایس آئی‘نے امریکہ کی مدد کی تھی۔
عمران خان یو ٹرن لینے کے لئے تو مشہور (بلکہ بدنام) ہیں مگر اس بار انہوں نے بن لادن کی ہلاکت پر پاکستان کے سرکاری موقف پر یو ٹرن نہیں بلکہ کوئی ڈبلیو (W) قسم کا ٹرن لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بن لادن کی ہلاکت پر اسلام آباد کے سرکاری موقف کی گاڑی ہی الٹ گئی ہے۔ عمران خان کے بیان میں کم از کم پانچ تضادات ہیں جن کا احاطہ ذیل میں کیا جائے گا۔
پہلاتضاد: تیئس جولائی کو انٹرویو کے اگلے ہی روز ’سی آئی اے‘ کے سابق ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس نے عمران خان کے بیان کی تردید کر دی۔ اتفاق سے ڈیوڈ پیٹریاس نے یہ تردید امریکہ میں بھارتی قونصلیٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی کو بھی اسامہ بن لادن کی روپوشی کا علم نہیں تھا۔ غالباًموقع اور جگہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اس تاثر کی بھی تردید کی کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔
دوسرا تضاد: عمران خان کے بیان کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنما اسحاق ڈار کا ایک انٹرویووائس آف امریکہ (اردو سروس) نے نشر کیا۔ جس میں اسحاق ڈار نے عمران خان کے بیان کی نفی کی۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا نے پاکستانی پارلیمنٹ کو بریفنگ دی تھی جس میں انہوں نے اس واقعے کو پاکستانی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا تھا۔ڈار صاحب کے بقول اس ناکامی پر جنرل پاشا نے استعفیٰ دینے کی پیشکش بھی کی تھی۔
تیسرا تضاد: عمران خان کا یہ بیان گزشتہ حکومتوں کے سرکاری بیان سے میل نہیں کھاتا۔ اسامہ بن لادن کے مسئلے پر اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت اور فوج کے مابین اختلافات نے میمو گیٹ کی شکل اختیار کی جس کی بنیاد ہی اسامہ بن لادن کی ہلاکت تھی۔ ان دنوں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ اسامہ بن لادن کس کی مرضی سے پاکستان میں رہ رہے تھے؟ اس سے قبل وہ اس واقعے پر تضادات سے بھر پور بیان دے چکے تھے کیونکہ یہ واضح تھا کہ فوج اور سول قیادت اس مسئلے پر اختلافات کا شکار تھے۔ ادھر لوگوں میں شدید غصہ تھا۔ عالمی سطح پر پاکستان کی جو سبکی ہوئی اس کا تقاضا تھا کہ یہ بیان اس وقت جاری کروایا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔
چوتھا تضاد: اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر مذکورہ بالا بیان کی عمران خان نے اگلے روز ہی خود بھی نادانستہ تردید کر دی۔تیئس جولائی کو ’یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس‘ سے خطاب کرتے ہوئے وہ غالباً ”فوکس نیوز“ کو دیا گیا انٹرویو بھول گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ”ہمارے امریکہ کے ساتھ باعزت تعلقات ہوں گے۔ ان تعلقات میں دوبارہ اس طرح کی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا (جو بن لادن کی ہلاکت کے وقت ہوئی)۔ بطور پاکستانی میں کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہواجتنا اسامہ کی امریکی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے وقت ہوا۔ ایسی شرمندگی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی کیونکہ ہم امریکہ کے اتحادی تھے اور امریکہ کو اپنے ہی اتحادی پر اعتماد نہیں تھا۔ میں ہی نہیں،ہر پاکستانی شرمندہ تھا۔“
اگر پاکستانی ادارے اس آپریشن میں شامل تھے تو پھر شرمندگی کیسی؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک روز قبل صدر ٹرمپ کے ہمراہ پریس ٹاک کے دوران شکیل آفریدی کا سوال اٹھا۔ اس وقت عمران خان نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔گویا دو دن کے امریکی دورے میں اسامہ کی ہلاکت پر ان کے موقف میں تضادات کم از کم تین دفعہ کھل کر سامنے آئے۔
پانچواں تضاد: ان کا یہ موقف کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں پاکستانی اداروں نے تعاون کیا تھا اس مسلسل رپورٹنگ اور پراپیگنڈے کی نفی کرتا ہے جو پاکستان کے نیوز چینل ان دنوں چوبیس گھنٹے کر رہے تھے۔ پاکستانی چینل مسلسل سازشی تھیوریاں پیش کر کے عوام کو گمراہ کر رہے تھے۔ کبھی یہ کہا جا رہا تھا کہ وہاں اسامہ بن لادن تھا ہی نہیں۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ اسامہ بن لادن کا ہم شکل مارا گیا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ امریکہ نے کوئی آپریشن ہی نہیں کیا۔اسامہ کی مبینہ لاش پر بھی بات کی گئی۔ اتفاق سے میڈیا نے عمران خان کے حالیہ بیان کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کسی نے اتنا بھی نہیں کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ہی پاکستانی شہریوں کے سامنے پیش کر دی جائے۔
اختتامیہ
مندرجہ بالا جائزے سے نہ صرف عمران خان کا دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عمران خان سفارتی باریکیوں سے بالکل نابلد ہیں۔ سفارتی سطح پر نمائندگی کرتے ہوئے ایک مدبر رہنما پبلک میں مشکل سوالات کا جواب ٹال جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ بھی ممکنہ مشکل سوالات پر اپنے رہنما کو مشکل دوروں سے پہلے بریف کرتی ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی مشکل سوال آ جائے تو اس کا جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ آپ با آسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سوال کا جواب پبلک میں یا میڈیا کے سامنے دینا نامناسب ہو گا۔ اس طرح کے کئی”جوابات“ سفارت کاری کے دوران ازبر ہونے چاہئیں۔ معلوم نہیں وزارت خارجہ نے عمران خان کو بریف نہیں کیا یا ڈونلڈ ٹرمپ کی صحبت کا اثر تھا کہ عمران خان نے یہ بیان دیا مگر یہ بات طے ہے کہ ان کا یہ جواب پاکستانی حکمران طبقے کا پیچھا کرتا رہے گا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔