اسلم ملک
محمد رفیع کی آواز میں ”بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے“ کو بالی وڈ کی تاریخ کا سب سے مقبول گیت قراردیا گیا تھا۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک کی کرائی گئی ووٹنگ میں سامعین نے اس گیت کو سب سے زیادہ پسند کیا جسے حسرت جے پوری نے لکھا اور موسیقی شنکر جے کشن نے ترتیب دی تھی۔ دوسرے نمبرپر راج کپور کی فلم”آوارہ“ کا گانا”آوارہ ہوں“ رہا جسے مکیش نے اپنے انداز میں گایا تھا۔تیسرے نمبر پر مشہورفلم ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ کا گانا”تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم“ جبکہ چوتھے نمبر پرفلم”دل اپنا اور پریت پرائی“ کا گانا”عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم“ رہا۔
محمد رفیع 24 دسمبر 1924ء کو امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی گلی میں ایک فقیر آتا تھا جو بلند آواز میں گیت گاتا تھا۔ رفیع کو اسے گنگناتا دیکھ کر ان کے بڑے بھائی نے استاد وحید خان کی سرپرستی میں انہیں تعلیم دلائی۔ ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ لاہور میں گزرا جہاں ان کے بڑے حجام کا کام کرتے تھے۔
پہلا گانا
رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ پہلی پنجابی فلم”گل بلوچ“ میں انہوں نے اپنا گیت زینت بیگم کے ساتھ ریکارڈ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہور گلوکار تھے اور انہیں سننے کے لیے سینکڑوں کا مجمع تھا۔ مگر بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نے گانے سے انکار کر دیا۔ اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایک گلوکار ہے اور اسے موقع دیا جائے۔
مجمعے کی ناراضی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ 13 سال کی عمر میں انہوں نے اسٹیج پر گیت گایا۔ اسی پروگرام میں موسیقار شیام سندر موجود تھے۔ انہوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔ بس یہیں سے رفیع کا گلوکاری کا یادگار سفر شروع ہوا۔
تقسیم ہند سے قبل انہوں نے کئی فلموں میں نغمے گائے۔ فلم جگنو میں ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ ان کا گایا یہ گیت ”یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے“ ان کے ہزا رہا یاد گار نغموں میں سے ایک ہے۔
نوشاد سے ملاقات
رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب موسیقار اعظم نوشاد نے انہیں گانے کا موقع دیا۔ اس وقت نوشاد علی اور طلعت محمود کی جوڑی بہت کامیاب تھی۔ نوشاد کا ہر گیت طلعت محمود گاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز نوشاد نے طلعت محمود کو گانے سے قبل سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔ اصولوں کے پکے نوشاد بہت برہم ہوئے اور انہوں نے طلعت کی بجائے رفیع کو چن لیا۔ رفیع نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
نوشاد کے ساتھ رفیع کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ بیجو باورا کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔
”من تڑپت ہری درشن کو آج“ جیسا کلاسیکی گیت ہو یا ”چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے“ کا چنچل نغمہ، رفیع کو ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے وہ نغمے بھی گائے جسے اس وقت کے دوسرے گلوکاروں نے گانے سے منع کر دیا تھا۔ کشور کمار نے ”ہاتھی میرے ساتھی“ کا گیت ”نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر“ گانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔ انہوں نے اردو، ہندی، مراٹھی، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری اورتامل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لئے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔
فلم”پیاسا“ میں جانی واکر کے لیے انہوں نے”تیل مالش“ کا جو گیت گایا اسے سن کر لگتا ہے کہ سامنے جانی واکر ہی گا رہے ہیں اور اس کا اعتراف خود جانی واکر نے بھی کیا تھا۔
رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر ایک پیسہ لیے گیت گایا۔ ایک بڑے موسیقار نے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لیے ایک خالی لفافہ پکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔
گلوکار محمد رفیع دنیائے موسیقی کے ایسے نامور اور شہرت یافتہ گلوکار رہے کہ جنھوں نے اپنے فنی کیرئیر میں 4516 گیت گا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے انمول گھڑی، میلہ، انداز، دیدار، بیجو باورہ، دوبیگھا زمین، دیوداس، چوری چوری، پیاسا، کاغذ کے پھول، تیرے گھر کے سامنے، گائیڈ، ارادھنا، ابھیمان، نیا دور، کشمیر کی کلی، مغل اعظم، جنگلی، پروفیسر، چائنا ٹاؤن، تاج محل، میرے محبوب، سنگم، دوستی، وقت، خاندان، جانور، تیسری منزل، میرا سایہ، دل دیا درد لیا، کھلونا، دوستانہ، پاکیزہ، کاروان، لیلیٰ مجنوں سمیت ایک ہزار کے قریب فلموں میں گیت گائے۔
ان کے یادگار گیتوں میں کیا ہوا تیرا وعدہ،بہاروں پھول برساؤ، لکھے جو خط تجھے، چْرا لیا ہے تم نے جو دل کو، تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے، دل کے جھرکوں پے تجھ کو بٹھا کے، چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے، چودھویں کا چاند ہو، بابل کی دعائیں لیتی جا، تعریف کروں کیا اس کی، چاہوں گا میں تمھیں سانجھ سویرے، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، تیری آنکھوں کے سوا، چھپ گئے سارے نظارے، پردہ ہے پردہ، او میری محبوبہ، یہ ریشمی زلفیں، آنکھوں ہی آنکھوں میں وغیرہ شامل ہیں۔
محمد رفیع 31 جولائی 1980ء کو بمبئی میں حرکت قلب بند ہونے سے صرف 56 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پرسوں ان کی 39 ویں برسی تھی۔ مندرجہ ذیل آٹو گرافڈ فوٹو محمد رفیع صاحب نے مجھے میرے خط کے جواب میں بھیجی تھی۔ تب میں شاید فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔