فاروق سلہریا
آج صبح بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس شق کے خاتمے کا بل وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان بالا میں پیش کیا۔ اس بل پر بھارتی صدر پہلے ہی دستخط کر چکے تھے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ لداخ کو دہلی کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا جائے گا اور وہاں کے لوگوں کے پاس کوئی جمہوری نمائندگی نہیں ہو گی۔
یوں جموں کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل وہ خصوصی حیثیت ختم ہو جائے گی جس کے تحت اسے چند خصوصی مراعات حاصل تھیں۔ ان مراعات کا سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ ریاست جموں کشمیر سے تعلق نہ رکھنے والے بھارتی باسی نہ تو ریاست کے اندر جائیداد خرید سکتے تھے نہ ہی ریاستی نوکریوں کے حقدار تھے۔
اس نقطے کی اہمیت اس وجہ سے بھی تھی کہ اس طرح جموں کشمیر کے لوگوں کو ان کی ریاست میں اقلیت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا دوسرا مطلب ہے کہ سافٹ قسم کی نسلی صفائی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب جموں کشمیر کے وسائل کی لوٹ مار نہ صرف بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کر سکے گا بلکہ اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے لئے بھی کھول دیا جائے گا۔
نریندرا مودی کی ہندو بنیاد پرست حکومت کا یہ عمل کچھ دنوں سے متوقع تھا۔ گزشتہ چند دنوں سے پوری ریاست کو یرغمال بنا کر لوگوں کو دہشت زدہ کر کے اس تبدیلی کے لئے تیاری کی جا چکی تھی۔ بھارت کے زیر انتظام سارے جموں کشمیر میں انٹرنیٹ سمیت ٹیلی کمیونی کیشن کا سارا نظام جام کر دیا گیا ہےاور کرفیو کا سا سماں ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے سے مسئلہ کشمیر مزید الجھ گیا ہے۔ یہ ریاست کے شہریوں پر ایک نیا حملہ ہے۔ دونوں ممالک کے ترقی پسند حلقوں کی جانب سے اس اقدام کی مذمت کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ عمل بھارتی مقبوضہ کشمیر پر ’معاہدہ کراچی‘ لاگو کرنے کے مترادف ہے۔ تقسیم کے بعد پہلے معاہدہ کراچی اور اب آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ریاست جموں کشمیر کو جنوب ایشیا کا کردستان بنا کے رکھ دیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل عمران خان پہلے ہی یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے: لداخ ہندوستان کے پاس ہو، گلگت بلتستان پاکستان کے پاس ہو اور وادی اور آزاد کشمیر کو ملا کر تیسرا حصہ خودمختیار بنا دیا جائے۔
کل کی اشاعت میں ہم اس معاملے پر مزید تجزئیے اور تناظر پیش کریں گے۔ اس موقع پر ہم بطور ادارہ ریاست جموں کشمیر کے شہریوں سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ ہم ایک جمہوری، سوشلسٹ اور خودمختار کشمیر کو ہی ’مسئلہ کشمیر‘ کا دیرپا حل سمجھتے ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔