شاعری

ساحر لدھیانوی کی نظم، چکلے: ”مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی“

تجزیہ: نغمہ جائسی

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی، یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

تعفن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ اجلے دریچوں پہ پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑ کیوں پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں، یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

یہاں پیر بھی آ چکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے، ماں بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودا کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بلاؤ خدایانِ دیں کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

عورت کی عظمت اور محبوب کی شکل میں سارے رنج ومحن اپنانے والی حسیت اختر شیرانی سے لے کر فیض اور سردار جعفری سے ہوتی ہوئی ساحر کے یہاں پہنچی تھی۔ خالص ہندوستانی روایات میں لپٹی ہوئی ایک لڑ کی کی تصویر ہے جو کہیں کسان کے گھروندے میں جنم لینے والی خوبصورت دوشیزہ ہے تو کہیں مجبوریوں کے سبب ایک طوائف۔ جو پیغمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی ہے، پھربھی مردانہ سماج میں تذلیل کا ذریعہ بنی رہتی ہے۔ مری مراد ساحر لدھیانوی کی نظم ’چکلے‘ سے ہے۔

نظم چکلے ایک احتجاجی نظم ہے، جس میں ساحر نے سماج کے ان لوگوں سے احتجاج کیا ہے جو خودی کے محافظ، مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ عورت کو بازار کی زینت بننے پر مجبور تو کر سکتے ہیں لیکن اسے انصاف نہیں دلا سکتے۔ ساحر نے اپنی نظم میں ایسے ہی ثنا خوان تقدیس مشرق کو تلاش کیا ہے، ان کے ذہن کو جھنجھوڑا ہے، احساس کو بیدار کیاہے، جو عورت کے استحصال کے ذمہ دار ہیں۔

چونکہ ساحر عورت کے استحصال کو محض جسم و جاں تک نہیں دیکھتے بلکہ سماجی و معاشی تناظر میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ حیات پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسا اس لئے کہ وہ باقاعدہ ایک مخصوص نظام معاشرہ اور فلسفہ حیات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے ساحر نے اپنی نظموں میں عورت کے حق کے لئے، اس کی حیات و کائنات کے لئے جو احتجاج کیا وہ ذہنی و فکری تھا، جس نے عورت کو حقیر سمجھنے والے مردانہ سماج کے روائتی و دقیانوسی نظام کو دہلا دیا۔ اس نظم میں بھی ساحر کا غصہ ایسے سماجی نظا م کے خلاف ہے۔ اس نظم میں ساحر نے بتا دیا کہ وہ ان لوگوں کو مورد الزام سمجھتے ہیں جو اعلیٰ قدروں کو بھلا کر کسی غریب، نادار و مفلس عورت کے ارمان و عزت کو اپنے عیش کا سامان سمجھتے ہیں۔ ساحر نے اس نظم میں چکلے کا نقشہ اس طرح پیش کیا ہے کہ معاشرے کی تصویر ذہن میں رقص کرنے لگتی ہے۔

نظم چکلے میں ساحر نے دوسرے بند کے تیسرے مصرعے ”یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار“ میں کہنا چاہا ہے کہ یہ تکرار عورت ذات کا بہت بڑا مذاق ہے اور یہ مذاق مردانہ سماج نے ہمیشہ اڑایا ہے۔ عورت کی عزت کو سربازار رسوا کیا لیکن ثنا خوان تقدیس مشرق ہمیشہ خاموش رہے۔ اس نظم میں ساحر نے شرافت کا نقاب ڈالے چہروں کو بے نقاب کیا ہے اور زمانے کو ان کی حقیقت بتا ئی ہے۔ ”یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں“ یہ مصرع عورت کی معصومیت اور بے گناہی کا مظہر ہے۔ ”تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن“ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عورت ا س وقت کتنی بے بس ہوتی ہے جب امرا و رؤسا اس کی الجھن و بے کسی پر خوشی سے قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، ایسے میں عورت کو بے ردا کرنے منظرکھنچتے ہوئے آنچل کا مذاق، یہ سب عورت کی پامالی و بربادی کی وہ دردناک تصویریں ہیں جسے دیکھ کر لوگ اس کی مدد نہیں کرتے بلکہ قہقہہ لگاتے ہوئے راستوں سے گزر جاتے ہیں۔ ساحر نے ایسے ہی نظام کے خلاف احتجاج کا علم بلند کیاہے۔

پوری نظم میں عورت کی نفسیاتی کشمکش، اس کی پریشاں حالی، مجبوری اور بے کسی کا ذکر ہے۔ ایسے حالات میں جب عورت کی بے حرمتی انتہا کو پہنچ رہے ہو تو ساحر جیسا حساس شاعر مضطرب ہو اتحتا ہے اور پکار پکار کر لوگوں سے درخواست کرتاہے ”مدد چاہتی ہے یہ حواکی بیٹی“۔

جب کوئی عورت عاجزی، پریشاں حالی اور مفلوک الحالی کے سبب مردوں کے سامنے اپنی عصمت کا سودا کرتی ہے تو وہ طوائف اور اس کا گھر چکلہ کہلاتا ہے۔ مگر عزت کا لیبل چسپاں کئے، شرافت کا جھوٹا نقاب اوڑھے جب کوئی مرد اپنے پرشکوہ ایوان میں کسی کرایے کی لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بنا تا ہے تو ہمارا سماج نہ تو اس شخص کو کوئی نام دیتا ہے اور نہ اس کے پرشکوہ ایوان کو چکلہ کہا جاتا ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ مردہے؟ کیا اس لئے کہ سماج کی کوئی بندش کوئی قانون نہیں؟ ساحر نے انہی خیالات کا اظہار اس نظم میں کیا ہے۔ اور چیخ چیخ کر ثنا خوانِ تقدیسِ مغرب کو آواز دی ہے۔

بلاؤ خدایانِ دیں کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوان تقدیس ِمشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

بشکریہ: جوش بانی: ترقی پسند نظم نمبر، (مرتبین: اقبال حیدر، علی احمد فاطمی) جولائی 2010ء تا جون 2011ء)

Nagma Jaysi
+ posts

نغمہ جائسی نے الٰہ باد یونیورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کی زیر نگرانی ”ساحر لدھیانوی: حیات اور کارنامے“ کے عنوان پر مقالہ تحریر کیا جو کتابی صورت میں شائع بھی ہو چکا ہے۔ آج کل کانپور یونیوسٹی کے ایک کالج میں اردو پڑھا رہی ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ تنقیدی مضامین بھی شائع کر چکی ہیں۔