فاروق سلہریا
گزشتہ روز (5اگست) کو بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کا خاتمہ کر دیا۔ اگر اکتوبر 1947ء ریاست جموں کشمیر کا ’نکبہ‘ تھا تو آرٹیکل 370 کا خاتمہ ’نکبہ ثانی‘ ہے۔
اس شق کے خاتمے کا مطلب ہے کہ بی جے پی نے ریاست جموں کشمیر کو جنوب ایشیا کا کردستان بنا دیا ہے۔گو تین ملکوں کے قبضے کی وجہ سے یہ ریاست پہلے ہی کردستان سے زیادہ مختلف نہ تھی مگر اس عمل نے ریاست کی کردستانی ساخت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ بی جے پی کے اس اقدام کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ اندریں حالات سب سے اہم عنصر بی جے پی کی ہندوتوا سیاست ہے۔
جموں کشمیر کے خون سے بی جے پی کی سیاسی ہولی
نریندرا مودی کو معلوم ہے کہ جس طرح کا سیاسی ماحول مسلمانوں پر حملوں (بالخصوص ’گاو ئ رکشا‘ کے نام پر جس طرح مسلمانوں کی ہندو ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتیں ہو رہی ہیں) کے بعد پیدا ہوا ہے اس طرح کے ماحول میں وہ جتنا مسلمان دشمن اور پاکستان کو سبق سکھانے والا رہنما بن کر ابھریں گے ان کے بنیاد پرست ہندوووٹ بینک میں ان کی مقبولیت اتنی ہی بڑھے گی۔
اس میں شک نہیں کہ کل سے ہندوتوا برگیڈ ہندوستان میں فتح کے شادیانے بجا رہا ہے۔ اس سال مئی میں انتخابات سے قبل جس طرح پلوامہ حملے نے نریندرا مودی کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا تھا، آرٹیکل 370 کے خاتمے سے اسی طرح کی مقبولیت ایک مرتبہ پھر مودی کے حصے میں آئی ہے۔
اپنی طرف سے مودی حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں کشمیری مسلمانوں کو بھی سبق سکھا دیا ہے اور پاکستان کو بھی۔ گو اس فیصلے کے خلاف ہندوستانی بائیں بازو نے احتجاج کا اعلان کیا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل کو بھارت کی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے لیکن بی جے پی کے نقطہ نظر سے اسے ہر حال میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تو بھی وہ لوگوں کو بتا سکے گی کہ اس نے تو آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کیا۔ اگر یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو جموں اسکی جھولی میں آ گرے گا۔
بدقسمتی سے وادی کی پاکستان نواز قیادت نے جس طرح کی سیاست پچھلی تین دہائیوں سے کی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بی جے پی با آسانی آرٹیکل 370 کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا سفر ہندو بنیاد پرستوں اور وادی کے مسلمان بنیاد پرستوں نے مل کر طے کیا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے میں ایک اہم عنصر وادی کی قیادت تھی۔
کشمیری قیادت کا دیوالیہ پن
آرٹیکل 370 کے خاتمے کا بل تو اسی دن پیش ہو گیا تھا جس دن جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے کشمیر کے پنڈتوں پر حملے شروع کیے۔ پاکستان کے بارے میں جس طرح کی خوش فہمیاں وادی کے مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں ایسی خوش فہمیاں تو خود پاکستان کے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں۔ جوں جوں قیادت علی گیلانی جیسے مذہبی بنیاد پرستوں کے ہاتھ آتی گئی اور وادی میں ہونے والی مزاحمت پر اسلامی بنیاد پرستی کا رنگ گہرا ہونے لگا، توں توں جموں اور کشمیر کے بیچ اور کشمیر اور لداخ کے بیچ میں دراڑ گہری ہوتی گئی۔ اس گہری ہوتی ہوئی خلیج کا فائدہ بی جے پی کو بھی تھا اور پاکستانی سرکار کو بھی۔ پاکستانی حکمرانوں کو بھی ہندو جموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یوں اگر دیکھا جائے تو ایک طرف وادی کی دیوالیہ قیادت نے بی جے پی کی سیاست کو فروغ دینے میں کردار ادا کیا اور دوسری طرف ہندوستانی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا تذویراتی اتحاد نظر آئے گا۔
’سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے کے لئے خطے کے حکمرانوں کا اتحاد
مسئلہ کشمیر پر نئی دہلی اور اسلام آباد کا ایک دوسرے کے خلاف شور اپنے اپنے ملکوں میں لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے ہے۔ دونوں ملکوں کا حکمران طبقہ اس مسئلے کو حل کر چکا ہے۔ حل یہ ہے کہ جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر اسٹیٹس کو (یعنی جوں کی توں والی کیفیت) کو برقرار رکھا جائے۔
اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ دونوں نے کبھی بھی ایل او سی کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ کم از کم 1965 ء کی جنگ کے بعد سے ایل او سی پر اسٹیٹس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ کارگل، سیاچن اور دوسری در اندازیاں سب لہو گرم رکھنے کے بہانے ہیں۔ راقم نے اس موضوع پر تفصیل سے ایک اور حالیہ شائع شدہ مضمون میں لکھا ہے (۱)۔
دوسرا ثبوت یہ کہ جب بھی پاک بھارت معاہدے ہوتے ہیں یا امن پر بات ہوتی ہے تو کشمیر کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے یا اسے دو طرفہ طریقے سے حل کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ تاشقند، شملہ، لاہور، آگرہ۔ کسی بھی معاہدے یا اعلامیے کو دیکھ لیجئے کشمیر پر گول مول بات۔
”اسٹیٹس کو بطور حل“ کے دیگر فائدے بھی ہیں۔ جب بھی ہلکی پھلکی جنگ کی ضرورت پڑے‘ ایل او سی پر گولہ باری شروع کر دی جائے۔ ذرا سوچئے ”کارگل جنگ“ پنجاب یا سندھ کے محاذ پر لڑی گئی ہوتی؟
پاکستان کیا کرے گا؟
وائے تماشا کہ گزشتہ بھارتی انتخابات سے قبل پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کا تجزیہ یہ تھا کہ نریندرا مودی کے جیتنے سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد ملے گی (از راہ تفنن کہنے دیجئے کہ سازشی تھیوریوں کے شوقین پاکستانی اینکر پرسنز کو پلوامہ حملے میں کوئی سازش نظر نہیں آئی تھی)۔ عمران خان کا یہ بیان بھی شہ سرخیوں میں رہ چکا ہے کہ جموں کشمیر کو تین حصوں میں کاٹ دیا جائے۔ جموں لداخ ہندوستان کو، گلگت بلتستان پاکستان کو اور کشمیر کو نیم خود مختار بنا کر کشمیریوں کو دے دیا جائے۔ گو اس بیان کی پی ٹی آئی نے بعد ازاں تردید جاری کی تھی مگر اس طرح کی سوچ کا اظہار مختلف پلیٹ فارموں سے ہوتا رہتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ دہلی نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ اسلام آباد کی آشیرباد سے کیا ہے۔ اس کا اظہار دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے صحافی طلعت حسین نے بھی کیا ہے جو اس موقع پر مظفر آباد میں تھے۔
ممکن ہے آزاد کشمیر کے لوگوں کی سوچ محض ایک سازشی تھیوری ہو مگر یہ لوگوں میں پائے جانے والے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ اس کی ایک بنیاد ہے۔آزاد کشمیر کے لوگوں میں مذہبی سیاسی قوتوں کے خیالات اس طرح سے طاقتور نہیں جس طرح وادی میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تجربے سے جانتے ہیں کہ اسلام آباد اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی جاری رکھے گا۔
کیا کیا جائے؟
اس وقت بی جے پی نے پوری ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ لوگ گھر سے باہر قدم تک نہیں رکھ سکتے۔زبردست خوف و ہراس ہے۔ انٹرنیٹ تو کیا فون تک کرنا ممکن نہیں۔ یہ کرفیو کا ماحول ہمیشہ نہیں رہے گا۔ لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔ مزاحمت کریں گے۔ عدالت تک بات جائے گی۔ لازمی نہیں وہی ہو جو بی جے پی چاہے گی لیکن غلطیوں سے سبق سیکھنے کا بھی وقت ہے۔
مزاحمت کو مذہب کا رنگ دینا وادی کی قیادت کا دیوالیہ پن ہے۔ ترقی پسند قوتوں کو متحد ہو کر ایک ایسی قیادت پیش کرنا ہو گی جو ریاست کے سب خطوں کو متحد کر سکتی ہو۔
برصغیر بلکہ جنوب ایشیا کی ترقی پسند تحریک سے جڑت پیدا کرنا ہو گی۔
وادی کے مسلمانوں کو مسلح جدوجہد کی بند گلی سے باہر آنا ہو گا۔
مذہبی بنیاد پر اقلیت اور اکثریت کا قصہ ختم کرنا ہو گا۔
مندرجہ بالا باتیں نئی نہیں ہیں مگر وقت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ یہ باتیں نئی نہ سہی مگر درست ضرور ہیں۔
(۱)
Sulehria, F (2018) "Kashmir as Partition’s ‘Unfinished Agenda’.” In Ranjan, A (ed) Partition of India: Postcolonial Legacies. New Delhi: Routledge India, pp 193-208.
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔