نثار شاہ
ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی کی دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت نے گزشتہ روز ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی طرف سیاسی لحاظ سے جو غیر سنجیدہ، خطرناک اور جابرانہ قدم اٹھایا ہے وہ بلا شبہ سات دہائیوں سے ریاست پر نا مکمل قبضے کو ایک مکمل قبضے کی شکل دینے کے مترادف ہے۔
ہندوستان کے آئین میں موجودآرٹیکل 370 اور ’35 اے‘ کی شکل میں دو ایسی شقیں تھیں جن کی وجہ سے کشمیر میں ہونے والے تمام تر مظالم کے باوجود ہندوستان کے موقف کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف پر فوقیت حاصل تھی۔
آرٹیکل370 کی بنیاد 26 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی مبینہ دستاویز پرتھی۔الحاق کی یہ دستا ویز ریاست کے اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ تحریر ہوئی تھی(گو ان دستاویزات کے حوالے سے ایک تنازعہ موجود رہا ہے)۔ اسی الحاق کی وجہ سے 27 اکتوبر 1947 ء کو ہندوستانی فوج کشمیر میں داخل ہوئی اور بعد ازاں 1957ء میں ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی جس کے تحت ریاست کا الگ آئین اور جھنڈا تھا۔ ریاستی عوام کے علاوہ کوئی بیرونی باشندہ ریاست اور ریاستی جائیداد کا ٹائٹل حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
ریاستی آئین اور بھارتی آئین کے مطابق دفاع، امور خارجہ اور کرنسی کے علاوہ تمام سبجیکٹ جموں کشمیر ریاست کے پاس تھے۔ ہندوستان کا موجودہ اقدام دراصل ریاست جموں کشمیر کی تقسیم کو مستقل کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہندوستان نے جس خفیہ اور جابرانہ طریقے سے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ لیا اور اس پر عمل درآمد کیا ہے وہ بھارت کے جمہوری چہرے پر کلنک لگانے کے مترادف ہے۔ اور ریاست میں موجود تمام سیاسی قیادت کو پابندِ سلاسل کر کے جس طریقے سے مسئلہ کشمیر کو دفن کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بارودکو چنگاری دکھانے کے مترادف ہے۔
ہندوستان کا یہ قدم دراصل پاکستان کو بھی جواز مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنے زیرِ قبضہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلے۔ آزاد کشمیر میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان ملاقات کے فوری بعدہندوستان کا یہ عمل کسی خفیہ منصوبے یا معاہدے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک معاہدے کے بعد پاکستان کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور آزادکشمیر میں لگائے جانے والے اربوں روپے کے بجلی کے منصوبوں کی قانونی حیثیت کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آزاد کشمیر میں یہ تاثر کافی گہرا ہے کہ افغانستان کی طرح کشمیر پر بھی عالمی سامراج کی خواہشات اور ضرورتوں کے مطابق یو ٹرن لیا گیا ہے۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ ہندوستان کو کشمیر پر”گو اہیڈ“ دیا گیاہے تاکہ پاکستان بھی اپنے زیرِانتظام علاقوں کو اپنے اندر ضم کر سکے۔
ہندوستان کے خون آلود بٹوارے کے بعد عالمی سامراج نے تقسیم ِکشمیر کی صورت میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو ناسور چھوڑا تھا وہ اب عالمی سرمایہ داری کی منافع خوری کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
ایٹمی بم کی پن پر بیٹھے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ایک طرف جہاں اربوں ڈالر کی اسلحہ سازی کی صنعت کے فروغ کا باعث ہے وہیں کنزیومر کیپیٹل کے ذریعے ترقی کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں کے لیے خطرہ بھی ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو کبھی انسانی حوالے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ ہمیشہ ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر لیا گیا ہے۔
کشمیر کے عوام کے لامحدود حق خودارادیت پر سب سے پہلے اس وقت قدغن لگائی گی تھی جب اقوامِ متحدہ میں بھارت اور پاکستان نے کشمیریوں کے حق خودمختاری کو باہمی مشاورت سے ختم کرا دیا تھا۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری پراکسی وار کے نتیجے میں قتل ہونے والے ہزاروں نوجوانوں کے قتل عام کو اب قالین کے نیچے دبانے کے منصوبے پورے نہیں ہوں گے بلکہ یہ مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے گا۔ مسئلہ کشمیر پر موجودہ پالیسی پورے خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی۔