پاکستان

عمران خان کے دور میں کرپشن کیوں بڑھی؟

فاروق سلہریا

گذشتہ دو دن سے ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کا سالانہ کرپشن انڈیکس پاکستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زیر ِبحث ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سالانہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی)میں پاکستان مزید 16 درجے تنزلی کے بعد 140 ویں درجے پر آ گیا ہے۔ 180 ممالک کے انڈیکس میں گزشتہ برس پاکستان کی رینکنگ 124 ویں تھی۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں پاکستان 120 ویں درجے پر تھا، جبکہ تیسرے سال میں پاکستان مزید تنزلی کے بعد 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

انڈیکس کے مطابق قانون کی حکمرانی اور ریاست کی گرفت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کے سکور میں نمایاں تنزلی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں شہری آزادیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، ان ملکون کا کرپشن انڈیکس میں سکور بھی مسلسل کم ہو رہا ہے۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے اس انڈیکس پر تبصرے سے قبل چند وضاحتیں ضروری ہیں۔

۱۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل ایک سامراج نواز ادارہ ہے۔ اس این جی او کا سیاسی مقصد تیسری دنیا کے ممالک میں سامراجی مداخلت کے لئے، بدعنوانی کے نام پر، جواز فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے کا موازنہ کسی حد تک پاکستان سے کیا جا سکتا ہے جہاں کرپشن کے نام پر فوج سیاست میں مداخلت کا جواز بناتی ہے۔ ایوب، ضیا اور مشرف آمریت نے مارشل لا لگانے کے بعد بدعنوانی کے خاتمے کا نعرہ لگایا اور یہ تاثر دیا کہ سول سیاست دان بہت بدعنوان تھے اس لئے مارشل لا لگانا پڑا۔

۲۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کا کرپشن ماپنے کا طریقہ تحقیق (ریسرچ میتھڈالوجی) انتہائی ناقص ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ کسی ملک بارے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تاثرات حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ سرمایہ کار کسی ملک بارے یہ کہیں کہ اس ملک میں سرمایہ کاری کے لئے بہت رشوت دینی پڑے گی، تو اس ملک کو اسی حساب سے بدعنوان قرار دے دیا جائے گا۔ اس طریقہ کارپر ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے اندر سے تنقید ہوئی۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے اپنے اہل کاروں نے کہا کہ اگر رشوت لینے والے ممالک بدعنوان ہیں تو رشوت دینے والے کیوں بدعنوان نہیں؟ اس تنقید کے بعد ایک نئی درجہ بندی بھی شروع کی گئی مگر اس فہرست کو نہ تو ہر سال جاری کیا جاتا ہے نہ ہی میڈیا میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔ اس فہرست کو برائب پیرز انڈیکس (بی پی آئی) کہا جاتا ہے۔

۳۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے کرپشن کی جو تعریف مقرر کر رکھی ہے یا کرپشن کی جو وجوہات بیان کی ہیں (قانون کی حکمرانی نہ ہونا وغیرہ) انتہائی ناقص اور سطحی ہیں۔

۴۔ اصل کرپشن ہے طاقت کے استعمال سے دوسروں کے وسائل اور حقوق چھیننا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سامراج سب سے بڑی کرپشن ہے جو جنگ کی مدد سے عراق، افغانستان اور فلسطین پر قبضہ جما لیتا ہے۔ سامراج اصل کرپشن ہے جس نے لاطینی امریکہ اور افریقہ کا خون تک چوس لیا ہے۔ اسی طرح ملکی سطح پر سرمایہ داری اور آمرانہ نظام یا ادارہ جاتی بدعنوانی اصل بدعنوانی ہیں۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل ان سب مظاہر کا نام کبھی نہیں لیتی۔ کسے نہیں معلوم کہ پاکستان میں ادارہ جاتی بدعنوانی کا سب سے بڑا نمونہ فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی یا طبقاتی نظام ہیں مگر ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل ان میں سے کسی کا نام نہیں لے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے بیانئے کو سب سے زیادہ فروغ عمران خان نے دیا۔ اس بیانئے کے مطابق کرپشن یہ ہے کہ چند لوگ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ناجائز دولت کما لیتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ایماندار افراد آگے آئیں۔ جب ایماندار قیادت اور افراد بدعنوان لوگوں کی جگہ لیں گے تو بدعنوانی ختم ہو جائے گی۔

اسی قسم کا بیانیہ بھارت میں عام آدمی پارٹی نے فروغ دیا۔ اس پارٹی کا تو جنم ہی ایک ایسی این جی او کے بطن سے ہوا جو بدعنوانی ختم کرنے کے لئے،سامراجی سرمائے سے، بنائی گئی تھی۔

نہ تو پی ٹی آئی نہ ہی عام آدمی پارٹی نے کبھی نظام بدلنے کی بات کی یا سرمایہ داری کو چیلنج کیا نہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کرتی ہے۔ ان سب کا بیانیہ ایک ہی ہے۔ اس بیانئے کی زبردست ناکامی کم از کم پاکستان میں سب کے سامنے ہے۔

بطور سوشلسٹ ہمارا موقف ہے کہ:

۱۔ بد عنوانی کی وجہ افراد نہیں سرمایہ داری نظام ہے۔ بد عنوانی سرمایہ داری نظام کا بخار ہے۔ جب بدن میں وائرس موجود ہو تو بخار اس وائرس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس بخار کا علاج یہ نہیں کہ بدن پر برفیلا پانی انڈیلا جائے۔ وائرس کا قلع قمع کرنے کے لئے بدن کو اینٹی باڈیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن کا بخار ختم کرنے کے لئے یہ اینٹی باڈیز ہیں جمہوری سوشلزم۔

۲۔ بدعنوانی ’قانون کی حکمرانی ‘سے ختم نہیں ہوتی۔ قانون محض قانون نہیں ہوتا۔ قانون کا ایک طبقاتی پہلو ہوتا ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں جہاں محنت کش طبقہ کمزور ہو، وہاں بدعنوانی کو ہی قانونی شکل دے دی جاتی ہے۔ ملک ریاض کا بحریہ ٹاون ’غیر قانونی‘ ہے نہ ڈیفنس ہاوسنگ اسکیمز۔ ججوں کو ملنے والے اربوں روپے کے پلاٹ غیر قانونی ہیں نہ افسر شاہی کو ملنے والی مراعات غیر قانونی۔ امریکہ جیسے ملک میں (جہاں ’قانون کی حکمرانی‘ کا چرچا ہے) دنیا کے امیر ترین شخص، جیف بیزوس نے قانون کے اندر رہتے ہوئے یہ کارنامہ سر انجام دیا کہ اسے ایک ڈالر تک کا ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑا۔

۳۔ بدعنوانی کی وجہ طاقت کا ارتکاز ہے۔ یہ طاقت دولت کی طاقت ہے۔ طبقاتی طاقت ہے۔ تشدد پر اجارہ داری کی طاقت ہے۔ جب تک عالمی سطح پر تیسری دنیا کے ممالک سامراجی طاقت کے مقابلے پر کوئی متبادل کھڑا نہیں کرتے، سامراجی بدعنوانی جاری رہے گی۔ اسی طرح، جب تک پاکستان کے اندر فوج، عدلیہ، افسر شاہی، سرمایہ دار اور تاجر طبقے کے مقابلے پر کسان، مزدور، عام آدمی، گھریلو خواتین، طالب علموں اور پروفیشنل افراد کی تنظیمیں منظم انداز میں مزاحمت نہیں کریں گی، لوٹ کا نظام جاری رہے گا۔

معروف ائر لائن ورجن کے مالک رچرڈ برین سن ماحولیات کے تحفظ کے لئے چندہ دینے کے لئے مشہور ہیں۔ اس تضاد کے حوالے سے ایک بار کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ حضور اگر آپ کو ماحولیات کا اتنا ہی خیال ہے تو ائر لائن کا دھندہ کیو کرتے ہو جو ماحولیات کی سب سے بڑی دشمن سمجھی جاتی ہے۔

رچرڈ برین سن کا جواب تھا: اگر مین ائر لائن بند کر دوں گا تو کوئی اور کھول لے گا۔

قصہ مختصر: اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کرپشن ختم کرنے کے نام پر پی ٹی آئی جیسے لطیفے ہی جنم لے سکتے ہیں۔

آخری بات

مندرجہ ذیل گزارشات کی روشنی میں راقم اس دعوے کو نہ تو رد کر سکتا ہے کہ پاکستان میں ’کرپشن‘بڑھ گئی ہے، نہ ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ کم ہو گئی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کا طریقہ کار ہی غلط ہے۔ اس لئے اس کی کسی درجہ بندی کی کوئی اہمیت نہیں۔

ہاں، اگر کرپشن کی اس تعریف کو مد نظر رکھا جائے کہ بدعنوانی دوسروں کے وسائل اور حقوق پر بزور طاقت استعمال کا نام ہے تو بلاشبہ موجودہ ہائبرڈ نظام زیادہ بدعنوان ہے کیونکہ اس میں طاقت کا ارتکاز بڑھ گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان کے دور میں کرپشن اس لئے بڑھ گئی ہے کہ ہائبرڈ نظام کے تحت جمہوریت اور بھی کم ہو گئی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔