امان اللہ کاکڑ
حکمرانوں کے تاریخی عوام دشمن فیصلوں اور پالیسوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی، سماجی اور معاشی بحران مزید گہرا ہو چکا ہے، محنت کش عوام کو ہر آنے والے دن سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معاشی تنگدستی، محرومی اور بے بسی نے عوام کو گھٹن اور نہ سہہ سکنے والے حالات کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب نہ عوام کے پاس زندگی کو سہل بنانے کا کوئی طریقہ کار ہے، نہ ہی حکمرانوں کے پاس عوام کی حالت زار پر رحم کرنے کا کوئی پروگرام اور پالیسی ہے۔
عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور ڈکٹیشن پر چلنے والی عوام دشمن حکومت اور عوام کا خون چوسنے والے ظالم و جابر حکمرانوں کو ملکی بحران تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی اس تاریخی بحران کی انہیں کوئی پروا ہے۔ حالات کو اس نہج تک پہنچانا بھی کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ یہ پہلے سے واضح تھا کہ ماضی کی طرح ان حکمرانوں کی سامراج اور عالمی مالیاتی اداروں کی فرمانبرداری کی قیمت پاکستان کے محنت کش عوام کو ادا کرنا پڑے گی۔
آقاؤں کی ہدایات اور فرمانوں پر چلنے والے حکمرانوں کے فیصلوں اور پالیسیوں کے ثمرات اسی وقت سامنے آنا شروع ہو گئے تھے، جب انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری اور بے رحمی کے بموں کو غریب عوام اور محنت کشوں پر گرانا شروع کیا تھا۔ ملازمین کی برطرفی، روپے کی قدر میں گراوٹ، بجٹ کٹوتیوں، مہنگائی میں مسلسل اضافہ، تعلیم اور صحت کی ناقص پالیسیوں، بجلی اور گیس کی قیمتوں اضافے، کرونا وبا کے دوران غیر سنجیدہ اقدامات، اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے عوام کو بے بس اور لاچار کر کے رکھ دیا۔ عالمی سطح پر بھیک مانگنے پر مجبور اور بے بس ملک کو ان حالات پر لاکھڑا کرنا ان سامراجی مالیاتی اداروں کے مسلسل جبر اور حکمرانوں کی مسلسل چاپلوسی کا نتیجہ ہے۔
یہ بھی حقیت ہے کہ پچھلی حکومتوں کی طرح نیازی حکومت نے بھی کسی ایک مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس مسئلے کو دبانے کی کوشش میں کئی دوسرے مسائل پیدا کر دینے والا پرانا طریقہ واردات اختیار کیا۔ سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ دینے، کرپشن اور چوری کرنے اور آنے والے وقتوں میں مزید تباہی و بربادی کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے آئینی ترامیم کے علاوہ یہ حکومت کچھ نہیں کر سکی نہ آئندہ کر سکے گی۔ فلاحی اقدامات تو دور کی بات ضروریات عامہ کی تکمیل میں بھی یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ان کے تمام کئے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔
ناقابل قبول پالیسیوں کے نتیجے میں ابھرنے والی ممکنہ عوامی بغاوت کے خوف سے تبدلی سرکار اور اسکے رکھوالوں کو مختلف حربے استعمال کرنے پڑرہے ہیں۔ بحران کے نتیجے میں سماج میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف انسانیت سوز واقعات اور حادثات سمیت حکمرانوں کی آپسی چپقلش کو میڈیا کے ذریعے سے اس طرح استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان نان ایشوز کے ذریعے سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔
تاہم نسل در نسل حکمرانوں کی جعلسازیوں اوردھوکہ بازیوں کا شکار ہونے والے عوام اب جان چکے ہیں کہ اس نظام میں بننے والی ہر حکومت اور اس کی اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ تبدیلی سرکار کے خلاف جعلی اپوزیشن بھی روز اؤل سے عوامی بغاوتوں کو زائل کرنے کیلئے نام نہاد حکومت مخالفت کرتی آ رہی ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے قائم ہونے والے تمام اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے سے چلائی جانے والی کنٹرولڈ تحریک بھی حقیقی عوامی بغاوت کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس نظام کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف محنت کش طبقے کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے کردار کشی پر مبنی بیان بازی کا تبادلہ کیا جاتا رہا ہے۔
فضل الرحمان کی سربراہی میں متحد پارٹیوں کا اتحاد اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی جمعیت علما اسلام (ف) کے پروگرام اور اس کے دائرے سے نکل کر ایک قدم بھی آگے نہیں جا سکتی۔ اس اتحاد نے نام نہاد ترقی پسند قوم پرستوں کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا اور ساتھ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بورژوا قوم پرستی بھی اب کوئی ترقی پسند کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی میں بورژوا قوم پرست بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور نہ ہی دیگر بورژوا پارٹیوں کی طرح ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہیں۔ اس کنٹرولڈتحریک نے ایک مذہبی انتہا پسند کی قیادت میں ملک گیر احتجاجوں اور جلسوں کا انعقاد کیا اور تبدیلی سرکار کے خلاف خوب بھڑک بازی بھی کی۔ اس بہانے میں کٹھ پتلی نیازی حکومت بھی تین سال سے زیادہ عرصہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
تاہم ایک عنصر تسلی بخش ہے کہ عوام ان تمام پارٹیوں کی منافقت، دھوکہ دہی، سامراجی دلالی، اسٹیبلیشمنٹ کی کاسہ لیسی اور جھوٹی بیان بازی سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انتہا پسند تنظیموں کو بھی ریاستی سرپرستی میں وقفے وقفے سے سماج پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ یہ انتہا پسندی کا کارخانہ دہائیوں سے انتہا پسند غنڈوں کو پیدا کرتا رہا ہے، جسے ریاست اور حکمران بوقت ضروت استعمال کرتے رہے ہیں۔
اب جب تحریک انصاف حکومت اپنا 5 سالہ دور اقتدار ختم کرنے کی طرف گامزن ہو چکی ہے، تو اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد کے نام پر ایک جعلی تبدیلی کا ڈرامہ رچانے کیلئے سرگرم ہو گئی ہیں۔ اپوزیشن قیادت واضح طور پر کہتی تھی کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے نہیں بلکہ اس سلیکٹڈ حکومت کے خلاف ہیں۔ درحقیقت ان کی لڑائی اس نظام کے خلاف نہیں بلکہ اس نظام کو برقرار رکھنے کیلئے ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اقتدار کے حصول کیلئے وہ عوام کو ہر حد تک استعمال کر سکتے ہیں، لیکن اس نظام کی تبدیلی کیلئے اٹھتے قدموں کو روکنے کیلئے یہ تمام حکمران متحد ہونگے، کوئی بھی نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گا۔
اگر عدم اعتماد کامیاب بھی ہو جائے اور وزیر اعظم تبدیل بھی ہو جائے تو آنے والا وزیر اعظم بھی پہلے سے کئی مرتبہ آزمائے ہوئے حکمرانوں میں سے ہی ہو گا۔ آنے والا زیراعظم بھی سامراجی مالیاتی اداروں کے احکامات اور قرضوں کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے انہیں معاشی پالیسیوں کو اپنائے گا جو ماضی کے حکمران اپناتے آرہے ہیں۔
عوام اب ان میں سے کسی پر اعتماد نہیں کرینگے کیونکہ ان جعلی تبدیلیوں سے محنت کشوں اور عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بے روزگاری، مہنگائی، غربت اور سامراجی مالیاتی اداروں کی عوام دشمن پالیسیوں اور احکامات کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ ان سب ظلمتوں کے خلاف حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے محنت کشوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہو گی۔ تمام مالیاتی اداروں کے قرضوں کو ضبط کرنے، سامراجی معاشی پالیسیوں کو مسترد کرنے کیلئے ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کو استوار کرنا ہو گا۔ اس جدوجہد کیلئے انقلابی پارٹی کی تعمیر بنیادی فریضہ ہے تاکہ اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے والے محنت کش طبقے کو وہ حقیقی قیادت فراہم کی جا سکے جو سوشلسٹ انقلاب کی فتح کی ضامن ہو۔ سوشلسٹ انقلاب ہی محنت کشوں کی حتمی نجات اور ہماری منزل ہے۔