اداریہ ڈیلی ڈان
ترجمہ: امان اللہ کاکڑ
گزشتہ چند ہفتوں سے خبریں ملک میں پانی کی شدید قلت کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ حکام کے مطابق گزشتہ 10 دنوں میں پانی کی سپلائی پچھلے پانچ سالوں میں سب سے کم رہی ہے۔ دو بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا میں پانی کی سطح فروری سے ڈیڈ لیول پر ہے۔ تربیلا ڈیم 22 فروری کو ڈیڈ لیول پر پہنچ گیا تھا جبکہ منگلا ڈیم اب اپنی کل گنجائش کے 1 فیصد سے بھی کم پر پہنچ گیا ہے۔ نتیجتاً خریف کا موسم کم از کم 40 فیصد پانی کی کمی کے ساتھ شروع ہو گیا ہے، جس سے شدید خشک سالی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ مون سون میں ابھی دو مہینے باقی ہیں۔ سکھر اور کوٹری بیراج، جن کے کمانڈ ایریاز بنیادی طور پر تربیلا ڈیم پر منحصر ہیں، نے بھی آبپاشی کے پانی کے حجم میں 40 فیصد سے زیادہ کمی کی اطلاع دی ہے۔ رواں ماہ سندھ کی نارا اور روہڑی کینال میں بالترتیب 42 فیصد اور 37 فیصد پانی کی کمی کی اطلاع ملی ہے جبکہ کوٹری میں 53 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔
حکام کے مطابق یہ بحران ایک غیر متوقع خشک موسم سے پیدا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سردیوں کے مہینوں میں 26 فیصد کم برف باری ہوئی ہے اور مارچ کے بعد سے کوئی بارش نہیں ہوئی ہے۔ مزید برآں اس سال موسم گرما کے ابتدائی آغاز کے باوجود برف متوقع رفتار سے نہیں پگھلی، کیونکہ زیادہ تر برف باری اونچائی پر ہوئی ہے۔ یہ پریشان کن صورت حال حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی ادارے کچھ عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ 2025 ء تک پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں، آبی وسائل کے ناقص انتظام اور پرانے ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کے نتیجے میں بارش کے انداز میں تبدیلی کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حکام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پانی کی کمی شاید سب سے بڑا قومی چیلنج ہے، جس سے قومی خزانے کو سالانہ تقریباً 12 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور ملک کی مجموعی خوراک اور اقتصادی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکام کو فوری طور پر صورتحال کا جائزہ لینے اور ملک کے پانی کی تقسیم کے نظام کو اپ گریڈ کرنے اور اس کے انتظام کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ زمینی پانی کو ذخیرہ کرنے کے جدید طریقے بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔