ساحر لدھیانوی
سعئی بقائے شوکت اسکندری کی خیر
ماحول خشت بار میں شیشہ گری کی خیر
بیزار ہے کنشت و کلیسا سے اک جہاں
سوداگران دین کی سوداگری کی خیر
فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوش انتقام
سرمایہ کے فریب جہاں پروری کی خیر
طبقات مبتذل میں ہے تنظیم کی نمود
شاہنشہوں کے ضابطہ خود سری کی خیر
احساس بڑھ رہا ہے حقوق حیات کا
پیدائشی حقوق ستم پروری کی خیر
ابلیس خندہ زن ہے مذاہب کی لاش پر
پیغمبران دہر کی پیغمبری کی خیر
صحن جہاں میں رقص کناں ہیں تباہیاں
آقائے ہست و بود کی صنعت گری کی خیر
شعلے لپک رہے ہیں جہنم کی گود سے
باغ جناں میں جلوہ حور و پری کی خیر
انساں الٹ رہا ہے رخ زیست سے نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہان نو
دیر و حرم کے حیلہ غارت گری کی خیر