لاہور (جدوجہد رپورٹ) رکن قومی اسمبلی اور رہنما پی ٹی ایم علی وزیر کی درخواست ضمانت عدالت العالیہ سندھ سے منظور ہونے کے بعد سندھ پولیس نے ایک سربمہر مقدمہ کو دوبارہ اوپن کر کے علی وزیر کی چوتھے مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کر دی ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے جیل میں علی وزیر سے 4 سال پرانے سربمہر مقدمہ کی تحقیقات کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
محسن داوڑ کے مطابق علی وزیر کو جونہی موجودہ مقدمات میں ضمانتیں ملنا شروع ہوئیں، تو بوٹ بیسن پولیس تھانہ میں مئی 2018ء میں سربمہر (سیل) کی گئی ایک من گھڑت ایف آئی آر علی وزیر کو مزید عرصہ تک جیل میں رکھنے کیلئے ظاہر کی گئی ہے۔
’نیا دور‘ کے مطابق تفتیشی افسر نے کہا کہ علی وزیر اور دیگر کی عدم گرفتاری پر مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا، اب معلوم ہوا ہے کہ ملزم علی وزیر سنٹرل جیل میں ہے۔ پولیس کے مطابق علی وزیر اور دیگر پر یہ مقدمہ اشتعال انگیز تقاریر سمیت دیگر الزامات کے تحت درج کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ علی وزیر کو دسمبر 2021ء میں پشاور سے گرفتار کر کے کراچی سنٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر، بغاوت، غداری اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے درخواست ضمانت منسوخ ہونے کے بعد عدالت العالیہ نے درخواست ضمانت پر سماعت مکمل کرنے کے بعد تین ماہ تک فیصلہ موخر کرنے کے بعد درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔
عدالت العالیہ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور تو کی لیکن ان کی رہائی اس وقت ممکن نہ ہو سکی جب کراچی پولیس نے ایک نئے مقدمہ میں ان کی گرفتاری ظاہر کر دی تھی۔
بعد ازاں تیسرے مقدمہ میں بھی علی وزیر کا ٹرائل شروع کیا گیا تھا۔ سندھ کی عدالت العالیہ نے رواں ماہ ہی علی وزیر کو ایک اور مقدمہ میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اب علی وزیر کے خلاف ایک چوتھا مقدمہ اوپن کر دیا گیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاست جنوبی وزیرستان کے منتخب ایم این اے پر ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسے ہی علی وزیر کو موجودہ مقدمات میں ضمانتیں ملنا شروع ہوئیں، بوٹ بیسن تھانے کی مئی2018ء کی ایک سربمہر (سیل) ایف آئی آر ایک اور من گھڑت کیس میں علی وزیر کو گرفتار کرنے کیلئے سامنے لائی گئی ہے۔ یہ عمل انتہائی شرمناک ہے۔‘