پاکستان

مولانا کی سیاسی قلابازیاں

امان اللہ کاکڑ

برصغیر کی تقسیم کے بعد جمعیت علما ہند سے علیحدہ ہو کر جمعیت علما پاکستان کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود نے شروع کی اور پھر مفتی محمود پاکستانی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ سیاست میں سرگرم ہونے کے بعد مفتی محمود کو تین بار انتخابات میں کامیابی ملی۔ مفتی محمود صوبیدار محمد صادق کے صاحبزادے تھے، جن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1100 قبائلیوں کے قتل عام میں حصہ لینے پر برطانوی ملکہ وکٹوریہ سے ملٹری ایوارڈ بھی وصول کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود دارالعلوم دیوبند سے فارخ التحصیل تھے۔ وہ یکم مئی 1972ء تا 21 فروری 1973ء صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیر اعلیٰ رہے۔ مفتی محمود 1977ء میں قائم کردہ قومی اتحاد کے سربراہ بھی رہے۔ اس اتحاد کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ اس بنا پر جمعیت علمائے اسلام نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی شراکت سے مخلوط حکومت قائم کی۔ مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت سوشلزم کا نعرہ لگایا جبکہ مفتی محمود سوشلزم کو کفر قرار دیتے تھے۔ اس بنا پر بھٹو اور مفتی محمود میں سیاسی دشمنی پیدا ہو گئی۔ 1972ء میں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد مولانا مفتی محمود نے سب سے پہلے شراب پر پابندی لگانے، جمعہ کے دن چھٹی اور اردو کو سرکاری زبان منوانے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کی۔ کچھ عرصہ بعد مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی چلائی اور 1979ء میں روس کے خلاف افغانستان میں مجاہدین کا ساتھ دینے اور نام نہاد جہاد لڑنے کا اعلان کیا۔ یہ وہی دور ہے جب دیوبندی مدرسوں کے نام پر پیٹروڈالر بھی پاکستان ٓنے لگے۔

اسی عرصہ میں مولانا فضل الرحمان جمعیت علما پاکستان موجودہ جمعیت علما ف کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن بھی مفتی کے نقش قدم پر چلتے آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی افغانستان میں طالبانی وحشت اور جعلی جہاد کا حصہ رہے اور 1996ء میں افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت بنانے میں حصہ دار بھی ر ہے۔

مولانا فضل الرحمن خاندانی طور پر طالبان کے مسلک یعنی دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1993-1996ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، تو مولانا فضل الرحمن ان کے اتحادی تھے اور اس وقت وہ خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ رہے۔ اسی دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت آ گئی، تو مولانا فضل الرحمن پر اپوزیشن جماعتوں نے، جن میں پاکستان مسلم لیگ ن بھی شامل تھی، یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ مولانا نے طالبان کو ڈیزل کے پرمٹ فروخت کیے ہیں۔

یاد رہے کہ مولانا پہلے پہل بینظیر کو غیر شرعی حکمران قرار دیتے ہوئے واضح طور مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔ مولانا طالبانی شریعت کو اپنے ملک میں کبھی بھی نافذ نہیں چاہتے اور ان کے گھر سے ابھی تک کوئی فرد اس نام نہاد اور فیک جہاد کا حصہ بنا ہے نہ کسی نے ’جامِ شہادت‘نوش کیا ہے۔ مولانا دوسروں کے بچوں کو اس سامراجی خون ریز کھیل میں قتل کرواتے رہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا خود وہ زندگی گزارتے ہیں جس کا عام لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ بول ٹی وہ پر اسد کھرل کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں پانچ ایکڑ پر مشتمل کروڑ وں کے بنگلے میں رہتے ہیں، اس کے علاوہ اپنے آبائی گاؤں عبدالخیل میں بھی ایک کئی کروڑ کا گھر تعمیر کیا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اثاثوں میں 300 کینال زرعی اراضی، شوگر ملز، بنوں روڈ پر بنگلہ، موضع رتہ کراچی میں سرکاری زمین کی الاٹمنٹ، شورکوٹ تحصیل ڈیرہ اسماعیل خان میں مکان، ایف 8 اسلام آباد میں بنگلہ، بنیالہ میں پانچ ایکڑ گھر، دبئی میں ایک فلیٹ، کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں فلیٹس اور دکانیں شامل ہیں۔ شائدیہ ان کے اثاثوں کی ایک معمولی سی جھلک ہے، اصل صورتحال اس سے کئی گناہ زائد اور اربوں کے مالیاتی اثاثے بھی موجود ہو سکتے ہیں۔

پچھلے سال 15 اگست 2021ء کو ایک بار پھر طالبان نے کابل کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جمہوری، انسانی اور نسوانی حقوق کی واضح طور خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ طالبان کے اقتدار ہاتھ میں لینے کے بعد معمول کی زندگی درہم برہم ہوگئی ہے، موسیقی کے آلات جلائے گئے ہیں، عورتوں کے روزگار اور تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے، افغانستان غربت کی اتاہ گہرایوں میں گر گیا ہے۔ روزگار کی فراہمی تو دور کی بات لوگوں سے بڑے پیمانے پر روزگار چھین لیا گیا ہے۔ لوگ گھریلو سامان بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ لوگ مجبوری میں اپنی کم سن بیٹیوں تک کو بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ افغانستان سے ہنرمند، کھلاڑی، پروفیشنل، گلوگار، تعلیم یافتہ مرد و خواتین فرار کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے اور افغانستان ایک کھنڈر بن گیا ہے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ طالبان نے افغانستان کو فتح کیا ہے، پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کرے، دنیا تعلق رکھے گی تو طالبان بھی قدر کریں گے۔ ان کے مطابق اب 20 سالہ جنگ کے بعد وہ فاتح ہیں اور اب بدل بھی گئے ہیں، اس لئے اب حکومت ان کو تسلیم کرے گی، ان کے ساتھ کاروبار کرے گی، طالبان بھی آہستہ آہستہ دنیا کو جان کر تعلق کی قدر کریں گے۔ افغانستان کے حالات اور طالبان کے اقتدار کا طریقہ کار مولانا کے ان دعوؤں کی قلعی کھول رہا ہے، لیکن مولانا اور ان کے ہمنوا اس وحشت کے افغانستان پر تسلط کی کھلے عام حمایت کر کے اپنے ماضی کے اقدامات کو جواز بخشنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بننے کیلئے کوشاں ہیں۔

Aman Ullah Kakar
+ posts

امان اللہ کاکڑ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس (زراعت) کے طالب علم ہیں۔ قلعہ سیف اللہ سے تعلق ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے کارکن اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہیں۔