عمار علی جان
17 جولائی کے ضمنی انتخابات نے ایک بارپھر ثابت کیا ہے کہ روایتی پارٹیوں کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے پچھلے 35 سالوں کے ریاستی بیانئے، جس کا اہم جز سیاست دانوں کی کرپشن تھا، کو اسٹیبلشمنٹ سے چھین کر اپنی پارٹی کا بیانیہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب روایتی پارٹیوں کا رویہ آج بھی مغلیہ دور سے مختلف نہیں۔
ہر پارٹی میں جی حضوری کا کلچر پروان چڑھایا گیا ہے اور کبھی عوام کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کے سامنے کوئی متبادل پروگرام پیش کیا جائے۔ بس مسلسل یہ کہتے رہے کہ سیاست کی پچیدگیوں کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا ہے، لوکل لیول پر جوڑ توڑ کر کے الیکشن جیت جائیں گے اور عوام موجودہ حکومت کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے…لیکن عوام نے عمران خان کے دور میں ضمنی انتخابات کے دوران 13 میں سے 11 بار اپوزیشن کے نمائندوں کو جتایا اور کل بھی 20 میں 15 اپوزیشن کے امیدوار سرخرو ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی اور معاشی حالات کے عوامی رائے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ووٹر برادری سے بڑھ کر حقیقی مسائل پر ووٹ ڈالنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ پیچھے عوام نہیں، سیاسی رہنماہیں۔
ان انتخابات سے بحران کم نہیں، مزید گہرا ہو گیا ہے۔ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو بہت غیر مقبول ہو گئے تھے۔ اگلی بار وزیر اعظم بنے تو پہلے سے بھی زیادہ غیر مقبول ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمایہ داری کا شدید بحران ہے جو جلد قحط اور بیروزگاری کے طوفان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ امریکی جریدے اکانومسٹ کے مطابق روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں 25 کروڑ لوگ قحط سے متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے بہت سالوں تک ترقی ممکن نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ دار، جو آج 2700 ارب روپے سالانہ مراعات لے رہے ہیں، اس بحران کے اندر بھی اپنی جائیدادیں بچائیں گے کیونکہ کسی پارٹی میں یہ جرات نہیں کہ وہ لینڈ مافیا کو ہاتھ لگا سکے جبکہ اس بحران کا بوجھ غریب پر ہی ڈالا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر، جو بھی اقتدار میں آئے گا اور سرمایہ داری کو بچانے کی کوشش کرے گا، وہ عوام اور تاریخ کی عدالت میں رسوا ہو گا۔
ان حالات میں اہم بات یہ ہے کہ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ترقی پسند قوتیں عوام میں اپنا کام تیز کر دیں۔ یہ بات ہمیں بھول جانی چاہئے کہ عوام ایک دم سے کھڑی ہو گی اور بائیں بازوں کی کسی چھوٹی تنظیم کی قیادت تسلیم کر لے گی۔ عرب بہار سے لے کر سری لنکا تک ہر جگہ معلوم ہو رہا ہے کہ عوام کا نکلنا کوئی بنیادی تبدیلی کی علامت نہیں اور عمومی طور پر کسی ابھار کا فائدہ مقبول اپوزیشن پارٹیوں یا منظم ریاستی تنظیموں کو ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے یہ بیانیہ پاکستان کے بائیں بازوں میں مقبول ہے کیونکہ اس کے ذریعے یہ دلاسہ دیا جاتا ہے کہ ہم تھوڑے ہیں لیکن ایک دن عوام ہماری سچائی جان جائیں گے لیکن عوام نے ابھی تک اس سچائی میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ لاشعوری طور پر ایک شکست زدہ سوچ ہے جس نے بائیں بازو کو صرف تاریخ کا ایک بے بس تمائشی بننے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس سے بہت بہتر لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کے تجربات ہیں جنہوں نے 1990ء کی دہائی سے تنظیم سازی کے عمل کو مضبوط کیا، تحریکوں کے ساتھ ساتھ تنظیم کو بنایا اور سب سے اہم یہ کہ اپنے لائحہ عمل کو معروضی حالات کے مطابق مسلسل تبدیل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج حیرت انگیز طور پر لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک میں کئی ترقی پسند پارٹیاں امریکی مخالفت کے باوجود اقتدار میں آ چکی ہیں، حتی کہ بولیویا اور ہوندورس میں فوجی بغاوتوں کو بھی ناکام بنایا جا چکا ہے۔ اس کے برعکس جو تنظیمیں نظریاتی پختگی کے نام پر عوامی سیاست سے خوف زدہ رہتی ہیں، وہ ابھار کے وقت پر بھی معاشرے میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
ان تمام مسائل پر میں ایک تفصیلی وڈیو بناؤں گا لیکن اپنے مطالعے پر اگر نوجوان انقلابیوں کو ایک مشورہ دے سکوں تو وہ یہ ہے کہ تھیوری کے ساتھ تاریخ ضرور پڑھیں اور تنظیمی کام کے ساتھ کسی ورکنگ کلاس علاقے میں ضرور کام کریں۔
اگر لیفٹ کے پاس اپنا کام دکھانے کے لئے علاقے، فیکٹریاں یا کالج نہیں ہوں گے تو عام عوام متاثر نہیں ہو گی۔ کانگریسوں میں دانشور زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن عوام کے لئے ان کی اہمیت کم ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ضروری ہے کہ عوام میں کام کرنے کے دوران عوام کو سکھانے کے ساتھ ساتھ عوام سے سیکھیں۔ ہو سکتا ہے عوام اپنے دکھوں کو مذہب، قومیت یا ملکی سالمیت کے لبادے میں بیان کرے اور وہ کچھ لوگوں کو پسند نہ آئے لیکن ان کی باتوں میں کئی بار بہت حکمت چھپی ہوتی ہے۔ ہمیں سننے اور سمجھنے کے بھی نئے پیمانے تشکیل کرنے ہیں۔
یہ کام صبر آزما ہے اور اس میں سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے مواقع کم ہیں لیکن اس کام سے گزرے بغیر ہم محض تجزئے اور بھڑک بازی کے درمیان پھنسے رہیں گے جبکہ رجعتی قوتیں عوام کی جعلی ترجمان بن کر انہیں تباہی کی طرف دھکیل دیں گی۔ فسطائیت نما قوتوں سے لڑائی آج کے دور کی ایک اہم لڑائی ہے اور صرف ایک عمل پسند اور عوام میں جڑیں رکھنا والا ترقی پسند گروہ ہی ہمیں ایسی قوتوں سے بچا سکتا ہے۔
تصویر: بشکریہ دی فرائیڈے ٹائمز