پرویز امیر علی ہود بھائی
آزادی کے وقت برطانوی راج کے تحت قائم ہونے والی 16 یونیورسٹیوں میں سے پاکستان کے حصے میں صرف جامعہ پنجاب آئی تھی۔ 75 سال بعد، پاکستان میں 120 سے زائد سرکاری طور پر منظور شدہ یونیورسٹیاں ہیں۔ لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ایسی یونیورسٹیاں ہیں جو غیر سرکاری طور پر موجود ہیں اور اعلیٰ تعلیم مہیا کر رہی ہیں۔ کالجوں کی تعداد 75 سالوں میں 30 یا 35 سے بڑھ کر 1500 تک پہنچ گئی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم رواج پا گئی ہے۔
کامیابی کی علامتیں: اکثر جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ نے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھ رکھا ہے۔ ہر یونیورسٹی دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دے رہی ہے۔ زور و شور سے تحقیق کی جا رہی ہے۔ ایک لطیفہ زبان زدِ عام ہے کہ پروفیسر حضرات اتنے زیادہ مقالے اور کتابیں شائع کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اپنی ہی کتابیں اور مقالے پڑھنے کا وقت نہیں۔ حقیقت لیکن یہ ہے کہ یہ کوئی لطیفہ نہیں۔
ایک سپر سٹار پروفیسر صاحب، جنہیں پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھی دیا جا چکا ہے، نے ریاضی کے موضوع پر 1000 مقالے صرف 3 سال میں شائع کئے ہیں۔ گویا اوسطاً ایک مقالہ روزانہ کی بنیاد پر شائع کیا ہے۔ ایک اور صاحب ہیں جو سال میں کیمسٹری کے موضوع پر 25 کتابیں (اوسطاً ہفتے میں ایک کتاب) شائع کرتے ہیں۔ سالانہ کئی مقالے بھی شائع کرتے ہیں۔ 2020ء میں یہ افواہ بھی پھیلی کہ سٹینفورڈ یونیورسٹی نے دنیا بھر کے 159683 سائنس دانوں میں 81 پاکستانی سائنس دانوں کو بھی شامل کیا ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی نے اس خبر کی پر زور تردید کی مگر یہ فسانہ پاکستان میں اب بھی مقبول ہے۔
یہ ’کامیابیاں‘ اپنی جگہ، ہر یونیورسٹی کیمپس البتہ جہالت کی بد بو میں لپٹا ہوا ملے گا۔ دھڑا دھڑ مقالے اور کتابیں شائع کرنے والے پروفیسر حضرات سے اگر کہا جائے کہ اپنی تحقیق ماہرین کے کسی علمی فورم پر پیش کرو تو آئیں بائیں شائیں شروع ہو جائے گی۔ ایسے پروفیسر، ڈین یا وائس چانسلر کم ہی ملیں گے جنہیں ذوق مطالعہ ہو اور وہ عصر حاضر کی کسی علمی بحث پر ماہرانہ رائے پیش کر سکیں۔ اکثریت کسی ایسی سنجیدہ کتاب، یا ناول، کا نام تک نہیں بتا سکتے جو آخری بار انہوں نے پڑھی تھی۔
ایسے پروفیسر بھی خال خال ہی ملیں گے جو درست انگریزی یا اردو میں لیکچر دے سکیں۔ عمومی طور پر اردو انگریزی کو بھونڈے طریقے سے ملا کر لیکچر دیا جاتا ہے۔ لکھنے کی صلاحیت؟ گو سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز پر بے شمار سہولتیں موجود ہیں جن کی مدد سے زبان درست کی جا سکتی ہے اس کے باوجود پروفیسر حضرات اور اکثر طلبہ کی لکھی تحریر پڑھنے کے لئے اچھا خاصا سر کھپانا پڑتا ہے۔ کچھ مثالی قسم کے استثنا موجود ہیں مگر استثنا بہر حال استثنا ہوتے ہیں۔
اکیڈیمک زبوں حالی اُس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے جب آپ بزنس ایڈمنسٹریشن اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایسے سافٹ شعبوں سے ہوتے ہوئے ریاضی اور فزکس ایسے پیچیدہ شعبوں کی طرف جاتے ہیں۔ جن بیس یا تیس یونیورسٹیوں میں یہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہاں حالت یہ ہے کہ شائد ہی کوئی پروفیسر اے لیول کے کسی ریاضی یا فزکس کے مسئلے کو حل کر سکے۔ شائد ہی ان میں کوئی ویت نام کے کسی کالج لیول کے طالب علم کا مقابلہ کر سکے۔
سوشل سائنس اور لبرل آرٹس کی حالت قدرے بہتر ہے البتہ ان شعبوں میں بھی پروفیسر حضرات اور طلبہ کو ہر وقت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ اکیڈیمک آزادی کا حوالہ دینا بے کار بات ہو گی کیونکہ مغرب سے ’درآمد‘ کئے گئے نظریات کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ فلسفہ اس کی ایک مثال ہے۔ فلسفہ اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ سوچ پر کوئی پہرا نہیں ہونا چاہئے۔ ملک بھر میں نو یونیورسٹیوں میں فلسفے کے شعبے موجود ہیں۔ اس کے باوجود کسی ایک پاکستانی پروفیسر کا نام بتا دیں جسے عالمی سطح پر فلسفیوں کی کمیونٹی فلسفی مانتی ہو؟
اس سے بھی زیادہ شرمناک پہلو موجود ہیں: کچھ یونیورسٹیاں چپ چاپ ڈگریاں بیچ رہی ہیں۔ پروفیسر رشوت لے کر طلبہ کو نمبر دیتے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ ببانگ دہل ٹرانسفر پوسٹنگ کے ذریعے پیسے بناتی ہیں۔ جنسی ہراسانی کی تو بات جانے ہی دیجئے، جب تک پکڑے نہیں جاتے، یہ جائز ہے۔ طلبہ کی تنظیمیں شدید مذہبی رجحان رکھتی ہیں۔ ان تنظیموں کے ارکان نماز تو باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور توہین مذہب کے نام پر لنچنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ملیں گے مگر اکثریت امتحانات میں نقل کے خلاف نہیں۔
یونیورسٹیوں کی یہ حالت دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ اس دانش وارانہ صحرا، جس میں کہیں کہیں نخلستان بھی ملتے ہیں، کا ظہور کیسے ہوا؟ اس کا جواب ملتا ہے اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں۔
ماضی کے فسانوں میں گم، دو سو سال پہلے شمالی ہندوستان کا مسلمان جدید سیکولر تعلیم اور نئے آنے والے یورپی خیالات کا کٹر مخالف تھا۔ سائنس، انگریزی زبان سیکھنے اور جدید تعلیم کے حصول کے لئے سر سید احمد خان کی شاندار کوششیں کسی حد تک رنگ تو لائیں مگر یہ کوششیں ناکافی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے جس علی گڑھ یوینورسٹی کی بنیاد رکھی، جسے ’مسلم انڈیا کا مورچہ‘ کہا جاتا تھا، وہ تحریک پاکستان کا گڑھ تو بن گئی مگرسر سید احمد خان کو جو امید تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کیمبرج یا آکسفورڈ بن جائے گی، یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔
مدرسے کی جگہ سکول کی تعلیم کو مسلمانوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ہی تسلیم کیا۔ جب تک کیا، تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ تقسیم کے وقت جب فسادات شروع ہوئے تو اکثر پروفیسر جو ہندو تھے، بھارت ہجرت کر گئے۔ سینئر ہندو پروفیسر جو آسامیاں خالی چھوڑ گئے ان کو جونیئر مسلمان پروفیسروں اور لیکچررز نے پُر کیا۔ قاعدے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ قابلیت سے عاری لوگ صدر شعبہ، ڈین اور وائس چانسلر بن گئے۔ یہ لوگ ہر قابل شخص سے خائف تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر نئی آنے والی نسل پچھلی سے بھی نالائق تھی۔ موجودہ حالات کی وجہ یہ سلسلہ بھی ہے۔
ان معاملات کو درست کرنے کے لئے دو مختلف راستے چنے گئے۔ اؤل: جب جنرل مشرف نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ڈالر آسمان سے برسنے لگے۔ وہ جو شکایت تھی کہ حکومت اعلیٰ تعلیم پر پیسے خرچ نہیں کرتی، وہ دور ہو گئی۔ نئی یونیورسٹیاں بنیں، نئی عمارتیں بنیں، پروفیسر حضرات کا پے سکیل بہتر ہوا، مقالے شائع کرنے پر معاوضہ ملنے لگا، پی ایچ ڈی کے لئے وظائف مقرر ہوئے، بیرون ملک تعلیم کے لئے سکالر شپ کا اجرا ہوا، لیبارٹریوں کے لئے سامان درآمد ہونے لگا۔
دوم: اوریہ حالیہ دور میں ہونے لگا ہے کہ نظم و ضبط کے نام پر بہت سی بڑی یونیورسٹیوں میں ریٹائرڈ فوجی افسروں کو تعینات کیا گیا۔ اسلام آباد کی اکثر یونیورسٹیوں میں ایسے افراد نظر آئیں گے۔ ان ریٹائرڈ افسروں نے یونیورسٹیوں کو حسن ابدال اور کوہاٹ کے اُن کیڈٹ کالجوں کی طرز پر ڈھالنا شروع کر دیا ہے جس میں انہوں نے خود تعلیم حاصل کی تھی۔ یونیفارم اور ہیئر کٹ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ سوچ کو بھی اسی طرز پر چیک کیا جاتا ہے۔
کیا کیا جائے؟ اگر چراغ سے الٰہ دین کا جن نکل آئے اور مجھ سے پوچھے کہ اپنی تین خواہشیں بتاؤ جنہیں پورا کرنا ہے تو میری تین خواہشیں مندرجہ ذیل ہوں گی۔
اؤل: میری خواہش ہے کہ پاکستانی پروفیسر ایک اخلاقی کمیونٹی تشکیل دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی طالب علم کو سوائے اس کی تعلیمی کارکردگی کے، کسی اور بنیاد پر نہ تو سزا دی جائے گی نہ کوئی فائدہ۔ جب کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہوتو تسلیم کرو کہ اس سوال کا جواب معلوم نہیں۔ یہ مت ظاہر کرو کہ سب معلوم ہے۔ اس وقت تک کوئی مقالہ شائع مت کرو جب تک کوئی نیا زاویہ نگاہ پیش نہیں کیا جا رہا، اگر کوئی پروفیسر دوست پکڑا جائے تو اس کا ساتھ نہ دو، جب تک اپنی تنخواہ حلال مت کرو، تب تک تنخواہ مت لو۔
دوم: دنیا بھر میں جو علم پیدا ہو رہا ہے ہمیں اس پر خوش ہونا چاہئے اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم خود سے سیکھنے اور پڑھنے کی عادت ڈالیں گے۔ دنیا اس تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے کہ جو ڈگری آپ نے کل لی تھی، آج اس کی وقعت کم ہو چکی ہوتی ہے۔ جب تک کسی پروفیسر کو آئے روز ہونے والی نئی تحقیق اور بحثوں کا علم نہیں ہو گا، وہ اپنے طالب علموں کو انسپائر نہیں کر سکتا۔
سوم: میری خواہش ہے کہ تما اساتذہ اور انتظامی افسر تسلیم کریں کہ ایسے نوجوان پیدا کریں گے جو سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، انکی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کا آمرانہ طریقہ تعلیم مروج ہے، اسے ترک کر دیا جائے۔ یہ سوچنے کی بجائے کہ استاد کی عزت کرنا طلبہ پر فرض ہے، اساتذہ کو چاہئے کہ اپنے علم اور بلوغت سے طلبہ کے دل میں عزت بنائیں۔
امید ہے جن میری یہ خواہشیں پوری کرے گا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ الٰہ دین کا چراغ ملے گا کہاں سے۔