ڈاکٹر مظہر عباس
سیاسی مخالفین کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا اور انہیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دینا پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملکی تاریخ اپنے حریفوں پر غداری کے الزامات لگانے اور انہیں غدار قرار دینے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف سیاست دانوں تک ہی محدود نہیں ہے؛ سماجی کارکنوں، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں پر بھی ریاست کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ چند ماہ قبل، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے پر پوری اپوزیشن کو مؤثر طریقے سے ’غدار‘ قرار دے کر اس روایت کو انتہائی حد تک لے جایا گیا۔
بحیثیت عوام، ہماری عادت ہے کہ ہم لفظ ’غدار‘، جو کہ درحقیقت ایک بہت ہی مضبوط لفظ ہے، کو آزادانہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ملک کے مفادات کے خلاف سازش کرتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ غداروں کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ جب وہ مجرم ثابت ہوتے ہیں تو ان کی سزا یا تو عمر قید یا موت ہوتی ہے۔ غداری کے الزام کی سنگینی کی وجہ سے متعدد ممالک، جنہوں نے سزائے موت کو دوسری صورت میں غیر قانونی قرار دیا ہے، نے اس جرم کے مرتکب پائے جانے والوں کے لیے سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔ تقریباً ہر دوسری قوم، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے استعمار سے آزادی حاصل کی، نے ریاست کے ساتھ وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آئین میں آرٹیکلز یا شقیں شامل کیں۔
پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے 1973ء کے آئین کا آرٹیکل 5 وفاداری اور غداری سے متعلق ہے۔ اس کی شق 1 میں لکھا ہے کہ ”ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے“۔ اس شق کا غلط استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، نے پوری مشترکہ اپوزیشن کو غدار قرار دینے کی کوشش کی۔ تاہم، اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کالعدم قرار دے کر نہ صرف آئین کی بالادستی کو برقرار رکھا بلکہ اپوزیشن کو غداری کے الزام سے بھی بچا لیا۔ ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کا مقصد بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کو روکنا اور وزیر اعظم کو ڈی سیٹ ہونے سے بچانا تھا۔
پاکستان میں غداری کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی ہر طرح سے غداری کے الزامات لگانا پاکستانی سیاست کی ایک واضح پہچان رہی ہے۔ اگر کوئی شخص ہندوستان کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات کا حامی ہے۔
احمدیوں کے تحفظ کے لیے کھڑا ہے، 1971ء کے واقعات کے لیے بنگالیوں سے معافی مانگنے کی مہم چلا رہا ہے، بلوچستان اور سندھ میں قوم پرستوں کی حمایت کر رہا ہے، مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں کے لیے خلیجی ممالک کی مالی امداد پر سوال اٹھا رہا ہے، آئین کو منسوخ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہا ہے، دہشت گردوں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کا جواز پیش کر رہا ہے یا ان دعوؤں کی صداقت پر سوال اٹھا رہا ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کے خلاف تمام جنگیں جیتی ہیں، تو اسے غدار قرار دینا آسان ہے۔
ملک میں مخالفین کو غدار قرار دینے کی روایت 1947ء میں تقسیم سے پہلے متحدہ بنگال کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی سے شروع ہوتی ہے۔ مشرقی بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے اور صوبے میں عمومی طور پر اور کلکتہ میں خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں ان کا کردار اہم تھا۔ انھوں نے تقسیم کے بعد صوبائی دارالحکومت میں موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ تقریباً تین ماہ گزارے اور صوبے کو اس قتل و غارت اور آفت سے بچایا جس سے پنجاب نہ بچ سکا۔ ملک کے لیے ان کی وفاداریوں اور قربانیوں کے باوجود، انہیں مسلم لیگ کے حکمران طبقے سے اختلاف کی وجہ سے غدار قرار دیا گیا۔
اس فہرست میں دوسرے نمبر پر خان عبدالغفار خان ہیں جو سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور تھے۔ متحدہ ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے بجائے انڈین نیشنل کانگریس سے وابستگی کی وجہ سے اور صرف مذہب کی بنیاد پر قومی ریاست کے تصور کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ان پر غدار ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے فروری 1948ء میں پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا لیکن حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کبھی حاصل نہ کر سکے۔ انھیں کبھی بھی وفادار نہیں سمجھا گیا۔ درحقیقت، ان کے ساتھ ہمیشہ غدار جیسا سلوک کیا گیا۔ اس لیے انھیں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیل میں گزارنا پڑا۔
بانیِ پاکستان، محمد علی جناح، کی چھوٹی بہن اور مشیرِ خاص، فاطمہ جناح، بھی غداری کے فتووں سے نہ بچ سکیں۔ انہیں جنرل ایوب خان کے حامیوں نے غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا تھا۔ ان پر ایوب کی آمرانہ حکومت کے خلاف بے خوف مزاحمت کرنے اور ان کے خلاف 1965ء کے صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کرنے کی وجہ سے خان عبدالغفار خان کے ساتھ مل کر گریٹر پختونستان کے ایجنڈے پہ کام کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسی وجہ سے جناح کی برسی پر ان کی تقریر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویڑن سے نشر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
سندھ کے سیاسی رہنما غلام مرتضیٰ شاہ سید کو بھی ملک کی تخلیق کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کے باوجود پاکستان مخالف قرار دیا گیا۔ ان کے کریڈٹ پر ہے کہ انہوں نے اکیلے ہی صوبے کو مجوزہ مسلم ریاست، پاکستان، کا حصہ بنایا۔ خاص طور پر انہوں نے 1943ء میں صوبائی لیگ کے صدر کی حیثیت سے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کرائی تھی۔ باوجود ان کی گرانقدر خدمات کے، انہیں نئی مسلم ریاست میں غدار قرار دیا گیا۔ اس لیے انہیں اپنی زندگی کے تقریباً 30 سال قید و بند میں گزارنے پڑے۔ وہ اس وقت بھی پولیس کی حراست میں تھے جب انہوں نے 1995ء میں کراچی کے جناح اسپتال میں اپنی آخری سانس لی تھی۔
بہت سے دوسرے کردار ہیں جن پر غدار یا پاکستان مخالف کا لیبل لگایا گیا ہے۔ ان میں سے چند کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے: شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، محمود اچکزئی، فیض احمد فیض، استاد دامن، حبیب جالب، بے نظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر، نواب اکبر بگٹی، حامد میر، ملیحہ لودھی، نجم سیٹھی، ماما قدیر، علی وزیر اور فرزانہ بلوچ۔ ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگایا گیا ہے اور ان پر غیر ملکی دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو مزاحمت یا اختلاف رائے کی جرات کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ریاست اور حکمران اشرافیہ کو اختلافی آوازوں پر غداری کا الزام لگانے کا خطرناک کھیل کھیلنے کے بجائے ان کی بات سننی چاہیے اور ان کی حقیقی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اس لیے عدم برداشت اور استثنیٰ کی بجائے رواداری اور شمولیت کے کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ جتنی جلدی ہم یہ کریں گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔