حارث قدیر
پاکستان کے لوگوں نے اپنی دونوں نوبل انعام یافتہ شخصیات کو متفقہ طور پر ہیرو کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اگر ڈاکٹر سلام کو ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے مسلسل ریاستی و معاشرتی بے حسی کا سامنا ہے تو ملالہ کا نام سنتے ہی دائیں بازو کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔
ویسے مصر اور ترکی کے دائیں بازو کو بھی کبھی نجیب محفوظ اور ارحان پامک برداشت نہیں ہوئے۔ مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے تین ادیبوں کو ادب کا انعام ملا ہے۔ سب سے پہلے یہ اعزا ز عرب دنیا کے مہان ترین ادیب نجیب محفوظ کو حاصل ہوا۔
نجیب محفوظ کو 1988ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ وہ 1911ء میں مصر میں پیدا ہوئے اور واحد مصری ادیب ہیں، جنہیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے 1930ء سے 2004ء تک 35 ناول، 350 سے زیادہ مختصر کہانیاں، 26 فلم سکرپٹ، سیکڑوں کالم اور 7 ڈرامے تحریر کئے۔ انکے ناول ’چلڈرن آف دی گیبلاوی‘ پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور 1994ء میں ایک انتہا پسند ان کے گھر کے باہر ان پر حملہ کرنے میں کامیاب بھی ہوا، جس کی وجہ سے وہ معذور ہو گئے اور چند منٹ سے زیادہ لکھنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ انکی وفات 2006ء میں ہوئی۔ جس مذہبی جنونی نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا، اس نے ’چلڈرن آف دی گیبلاوی‘ کبھی پڑھا بھی نہیں تھا۔
ارحان پامک ترک ناول نگار،سکرین رائٹر اور ماہر تعلیم ہیں، انہیں 2006ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ ترکی کے سب سے ممتاز ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے کام کو 63 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور 13 ملین سے زیادہ کتابیں فروخت ہوئیں۔ وہ ترکی کے پہلے ادیب ہیں جنہیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔ تاہم وہ بھی انتہاء پسندوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ قوم پرست انتہا پسندوں کی طرف سے دھمکیوں کے علاوہ ان کی کتابیں نظر آتش کئے جانے کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔
ارحان پاک کو 2005ء میں ایک انٹرویو کے دوران آرمینیائی اور کردوں کے اجتماعی قتل سے متعلق تبصرہ کیا تھا، جو ترک دائیں بازو کو پسند نہیں آیا اور وہ آج بھی محافظوں کے پہرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں ’گارڈین‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پہلے انہیں تین محافظوں کے پہرے میں رہنا پڑتا تھا، تاہم اب ان کے ساتھ ایک محافظ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ مسلم بنیاد پرستوں سے نہیں بلکہ ترک قوم پرستوں سے ہے۔ انکے مطابق ’یہ دونوں گروہ ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں، اس وقت ترکی میں اسلامی قوم پرست اتحاد کی حکومت ہے۔‘
ترکی میں ان کے نئے ناول کی اشاعت کے بعد پہلے ہی اس کی دو مرتبہ جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی توہین اور ترکی کے جھنڈے کا مذاق اڑاتے ہوئے نفرت اور دشمنی کو ہوا دینے کے الزامات کے تحت تحقیقات کی جا چکی ہیں۔
انتہا پسند جس بھی نظریہ، فرقہ، گروہ یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، ان میں کچھ مشترکات پائی جاتی ہیں۔ ترکی اورمصر کے نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی دو مثالیں محض اس عمل کو سمجھنے کیلئے پیش کی جا رہی ہیں۔ درحقیقت پاکستان، بھارت جیسے پسماندہ ملکوں سمیت انتہا پسندی کا یہ عفریت ترقی یافتہ ترین ملکوں میں بھی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔
جن تصانیف پر انتہا پسند عناصر کو اعتراض ہوتا ہے اور مصنفین کو جان سے مارنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے، ان انتہا پسندوں کی اکثریت نے ان تصانیف کو پڑھا بھی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اکثر ایسے مہم پر لوگوں کو اکسانے والے بھی متعلق شعبہ یا تصنیف کی بابت محض سنی سنائی باتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نجیب محفوظ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے والے اولین افراد میں مصری نژاد عمر عبدالرحمان بھی شامل تھا، جو نابینا تھا۔
ارحان پاموک نے بھی اپنے خلاف ہونے والے ٹرائل سے متعلق گارڈین کو بتایا کہ انہوں نے جب سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کس صفحے پر توہین اور مذاق اڑانے کا تذکرہ ہے، تو سرکاری وکیل کے پاس بتانے کیلئے کوئی صفحہ نہیں تھا۔ تفتیش تو اپنے انجام کو پہنچی لیکن انہیں ابھی تک اس الزام سے نجات نہیں مل سکی۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جس تصنیف، بیان، نقطہ نظر یا نظریہ پر اعتراض کیا جاتا ہے، اس سے متعلق ناکافی علم کی وجہ سے اس کے من پسند معنی ڈکلیئر کر دیئے جاتے ہیں۔ جس طرح ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل سے متعلق حالیہ عرصہ میں ایک واویلا نظر آ رہا ہے۔
تاریخ کی من پسند تشریح اور عقیدت مندی کی حد تک تاریخ کے افسانوی کرداروں کو سچ تسلیم کروانے میں انتہا پسندی تک جانے کا عنصر بھی اس میں شامل حال رہتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں تاریخ کے ایک مبہم کردار ارتغرل غازی سے متعلق بنائے گئے ایک ترک ڈرامے کو سرکاری سطح پر اس قدر پروموٹ کر دیا گیا کہ اب ارتغرل غازی نامی کردار سے متعلق ڈرامے میں پیش کئے گئے واقعات سے ہٹ کر کسی بھی نوعیت کی تاریخی وضاحت پیش کرنے والے کی کم از کم سوشل میڈیا ٹرولنگ بہرصورت کی جاتی ہے۔
عبدالرزاق گورناہ تیسرے مسلمان ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں، جنہیں ادب کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔ وہ تنزانیہ میں پیدا ہوئے، تاہم 1960ء کی دہائی میں ایک پناہ گزین کے طور پر برطانیہ چلے گئے۔ انہیں 2021ء میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ شاید برطانیہ میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے وہ کسی بھی تنازع اور انتہا پسندوں سے محفوظ ہیں۔