لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایرانی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی مہسا امینی کی ہلاکت کے 40 ویں روز ایران کے مختلف شہروں اور جامعات میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ ایرانی سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین مہسا کے آبائی شہر ساقیز میں جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ مہسا امینی کی ہلاکت کے 40 ویں روز ان کی قبر کے قریب مظاہرین کا ایک ہجوم جمع ہو گیا تھا۔
’بی بی سی‘ کے مطابق کرد حقوق گروپ نے کہا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے ساقیز کے زندان سکوائر میں براۂ راست گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
قبل ازیں ایچی کے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں نے ’عورت، زندگی، آزادی‘ اور ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگائے۔
’ایران انٹرنیشنل‘ کے مطابق تہران کی ریفائنری کے مزدوروں نے احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کیلئے بدھ کو ہڑتال کی۔ کاراج اور شیراز یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی مہسا امینی کی موت کے 40 ویں روز احتجاجی مظاہرے کئے۔
رپورٹس کے مطابق تہران کے بازار کے قریب لالہزار میں دکانداروں نے حکومتی بربریت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے ملک گیر ہڑتالوں میں شامل ہوتے ہوئے اپنی دکانیں بند رکھیں۔
ایران ہیومن رائٹس کے مطابق کم از کم 234 مظاہرین بشمول 29 بچے سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں مارے گئے ہیں۔
بدھ کے روز ساقیز اور صوبہ کردستان کے دیگر حصوں میں فسادات کی پولیس اور نیم فوجی بسیج مزاحمتی فورس کے ارکان کو تعینات کیا گیا تھا۔ تاہم ویڈیوز میں ہزاروں مکینوں کو سڑکوں کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اور ایچی قبرستان تک پہنچنے کیلئے ایک شاہراہ پر، ایک کھیت سے اور ایک ندی کے اس پار چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
انسانی حقوق گروپ ہینگاؤ نے سنندج اور مہاباد کے قریبی شہروں میں بھی مظاہروں کو اطلاع دی اور ساتھ ہی کردستان کے شہروں اور قصبوں میں عام ہڑتالیں کی گئیں۔
حزب اختلاف کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ بدھ کو تہران سمیت ملک کے دیگر حصوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ ویڈیوز میں سکیورٹی فورسز کو احتجاج کرنے والی طالبات کو منتشر کرنے کیلئے ایک سکول میں آنسو گیس فائر کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔