حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک مرتبہ پھر مشکوک ہو گیا ہے۔ تاہم صورتحال آہستہ آہستہ دونوں فریقین کو بند گلی میں دھکیلتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد تیاریوں اور رکاوٹوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حصے انتخابات کے انعقاد رکوانے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ اعلیٰ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے سخت فیصلے کرنے کے بعد اب بند گلی میں دھکیلنے کی پالیسی اپنا لی گئی ہے۔
27نومبر کو ہونے والے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے 33ہزار اہلکاروں پر مشتمل فورس طلب کر رکھی تھی۔ تاہم پاکستان کی وفاقی حکومت نے تین روز قبل ایک مراسلے کے ذریعے فورس کی فراہمی سے معذرت کر لی ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے تحریر کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی صورتحال اورایک سیاسی جماعت کے لانگ مارچ کے پیش نظر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے مطلوب فورس مہیا نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا مقامی حکومت اور الیکشن کمیشن اپنے وسائل کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔
چیف الیکشن کمشنر عبدالرشید سلہریاکی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں مقامی حکومت کو تحریک کی گئی کہ سکیورٹی کیلئے متبادل ذرائع کا استعمال کیا جائے اور فورسز کا انتظام یقینی بنایا جائے تاکہ انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ انتخابات کا انعقاد بہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
تاہم مقامی حکومت کے پاس 8ہزار کے لگ بھگ پولیس فورس موجود ہے، جس میں سے دفاتر، سیکرٹریٹ اور تھانہ جات کو چلانے کیلئے کم از کم نفری کو مقرر کرنے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ 5ہزار کی فورس کو ریزرو کیا جا سکتا ہے۔ 5ہزار کی فورس کے ذریعے سے صرف ایک ضلع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ 3مرحلوں میں انتخابات کے انعقاد کیلئے بھی کم از کم 11ہزار اہلکاروں پر مشتمل فورس درکار ہے۔
بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا سے گفتگو میں انتخابات کے مرحلہ وار انعقاد کو بھی پلان بی کے طورپر زیر غور قرار دیا۔ مقامی حکومت نے آئینی اور انتظامی اختیارات کی بابت معلومات حاصل کئے بغیر اعلان کر دیا کہ پاکستان کے صوبوں اور گلگت بلتستان سے فورس منگوائی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں موجود پاکستانی فوج کو بھی انتخابات کے انعقاد کیلئے اہلکاران کی فراہمی کی بابت رابطہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
تاہم حکومت کو بعد میں معلوم ہوا کہ صوبوں سے فورس منگوانے کیلئے بھی پاکستان کی وفاقی حکومت کے ذریعے ہی تحریک کی جا سکتی ہے، اور حکومت پاکستان پہلے ہی فورس کی فراہمی سے معذرت کر چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاک فوج کے افسران نے بھی حکومت کو پیغام بھیجا ہے کہ پاک فوج کے اہلکاران پولنگ اسٹیشنوں کے باہر سکیورٹی کیلئے مہیا کئے جا سکتے ہیں، تاہم پولنگ اسٹیشنوں کے اندر پولنگ کروانے کے فرائض پاک فوج کے اہلکاران سرانجام نہیں دینگے۔ پولنگ کروانے کیلئے حکومت اپنے وسائل سے سکیورٹی فورسز کا انتظام کرے۔
اپوزیشن جماعتوں نے بھی گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے سکیورٹی فورسز طلب کئے جانے کی شدید مخالفت کی ہے، ساتھ ہی مرحلہ وار انتخابات کے انعقاد کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات27نومبر کو ہی منعقد کروائے جائیں اور فوج کی نگرانی میں منعقد کروائے جائیں۔
اپوزیشن جماعتوں کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب انہیں معلوم ہے کہ اس مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکے گا۔ یوں حکومت سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں انتخابات کو روکنا تو چاہتی ہیں لیکن کوئی بھی سامنے آکر یہ اعلان کرنے کے قابل نہیں ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد رکوانا چاہتا ہے۔ تمام سیاسی قیادتیں اس طرح کے اقدامات کررہی ہیں، جن کے ذریعے سے انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے۔
دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر رواں ماہ 12نومبر کو سروس سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس لئے وہ بھی انتخابات کے انعقاد میں کسی رکاوٹ کا ذمہ لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سخت احکامات دے رکھے ہیں۔ تاہم گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ممبر الیکشن کمیشن فرحت علی میر کو عہدے پر کام کرنے سے روک دیا ہے اور حکومت سے حکم امتناعی کے باوجود ان کی تقرری کئے جانے سے متعلق وضاحت طلب کرنے کے علاوہ ان کا سروس ریکارڈ بھی طلب کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ فرحت علی میر کو گزشتہ دور حکومت میں ممبر الیکشن کمیشن تعینات کیا گیا تھا۔ ان کی نگرانی میں ہی عام انتخابات کا انعقاد بھی ہو چکا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تمام تر تیاریاں مکمل ہونے کے بعد انہیں کام کرنے سے روکنے کا فیصلہ بھی معنی خیز ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا راستہ روکنا چاہتی ہیں، وہاں اسٹیبلشمنٹ کے جو حصے انتخابات کے انعقاد کیلئے بذریعہ سپریم کورٹ دباؤ ڈال رہے تھے، وہ بھی اب انتخابات کے انعقاد سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ لہٰذا ہر کوئی انتخابات کو رکوانا تو چاہتا ہے لیکن ذمہ داری کوئی بھی نہیں لینا چاہتا۔
اس ساری صورتحال میں 13ہزار کے لگ بھگ امیدواران اور ان کے حمایتی انتخابی مہم کی تیاریوں کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ ماضی میں بھی ایک بار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے امیدواران سے بھاری فیسیں وصول کرنے اور انتخابی اخراجات کروانے کے بعد انتخابات کا انعقاد التواء میں ڈالا جا چکا ہے۔ اس وجہ سے امیدواران اور رائے دہندگان کو یہ یقین نہیں ہے کہ اس بار بھی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پائے گا۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹوں کے سلسلہ میں بلدیاتی امیدواروں کا ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا، جس میں انتخابات کو التواء میں ڈالنے کی کوششوں کی سخت مذمت کی گئی اور اس طرح کے کسی فیصلے کے خلاف سخت ردعمل کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔
انتخابات کو موخر یا ملتوی کئے جانے کے فیصلے کی صورت میں سخت عوامی ردعمل کے خدشہ کے پیش نظر حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کوئی واضح فیصلہ کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے بتدریج بند گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایسی کیفیت میں جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں انتخابات کو موخر کئے جانے کے نتائج کے زیادہ سنگین ہونے کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے عروج پر اگر اس طرح کا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو حالات کو کنٹرول کرنا حکومت کیلئے ناممکن ہو جائے گا۔
وزیراعظم تنویر الیاس کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے بہر صورت انعقاد کو یقینی بنانے کے دعوے بھی اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کے خوف کی علامت ہیں۔ وزیراعظم عدم اعتماد کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی سزا قرار دینے کا بیانیہ بنانے کیلئے صرف زبانی دعوے کئے جا رہے ہیں، جبکہ ان کے پاس سکیورٹی کی فراہمی کیلئے کوئی متبادل پلان ابھی تک موجود نہیں ہے۔
دوسری طرف حکمران جماعت کے تمام اراکین اسمبلی بھی انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتے۔ حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں بدترین شکست بھی نظر آرہی ہے۔
صورتحال جس دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، اس میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے امکانات محدود ہونے کے ساتھ ساتھ سخت ردعمل کے حالات بھی بنتے جا رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے لئے خوفناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے، تاہم انتخابات میں رکاوٹ ریاست گیر احتجاجی تحریک کی صورت میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔