قیصرعباس
گزشتہ ہفتے کے دن صبح چھ بجے کے قریب فون کی ہیبت ناک گھنٹی نے ہمیں خوابِ خرگوش سے اٹھادیا۔ دوسری جانب ہمارے پرانے لنگوٹیے چودھری بنیاد علی تھے۔ میں نے شکایت کی کہ یہ کو نسا وقت ہے فون کرنے کا وہ بھی چھٹی کے دن؟
بولے: ”ایک ارجنٹ بات کرنی تھی“۔
جواب کا انتظار کئے بغیر ہی فرمانے لگے: ”بھائی جان مبارک ہو میں شاعر ہوگیا ہوں۔ رات آمد ہو ئی ہے۔ لو ہماری غزل کے دو اشعار حاضر ہیں:
شعر ہماری سوغاتیں ہیں سن تولو!
دل سے نکلی کچھ باتیں ہیں، سن تولو!
پواّ پی کر غزلیں سننے آتے ہو؟
پھرنئیں آئیں گی یہ راتیں، سن تولو!
ہمیں حیرت تو ہوئی کہ بنیاد علی کا تو دور دورتک ادب سے تعلق نہیں رہا۔ سناہے بحری جہاز میں نوکری کرتے کرتے امریکہ پہنچے اور بندرگاہ سے غائب ہو گئے۔ پھر اپنی محنت سے آج ماشااللہ ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کے مالک ہیں مگر یہ حیرت کچھ زیادہ دیر نہیں رہی کیوں کہ ہمیں معلوم ہے امریکہ میں رہنے والا ہر دوسرا پاکستانی شاعر بن چکا ہے یا بن رہاہے۔ پھربھی تجسس دور کرنے کے لئے پوچھا: ”یہ حادثہ کیوں کر سرزد ہوا“۔
بولے: ”رات ایک مشاعرے میں گیا تھا، واپسی پر نیندنہیں آئی تو سوچا شاعری کرلیں، ویسے بھی شاعروں کا بڑا مقام ہے ہمارے سماج میں۔“
ہم نے کہا:”مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ میں بھی یہ جراثیم موجودہیں۔“
کہنے لگے:”سچ پوچھئے تو مجھے بھی رات ہی پتہ چلاہے۔“
وہ دن اور آج کادن، شہر کا ایک مشاعرہ ایسا نہیں جس میں وہ مدعونہیں ہوتے۔ اب ان کا نام بمعہ تخلص بنیاد سیلانی ہے او ر پورے امریکہ میں مشاعروں کی جان تصورکئے جاتے ہیں۔ صاحبِ ثروت ہونے کی حیثیت سے مشاعروں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں او ر اکثر صدارت بھی ان ہی کے حصے میں آتی ہے۔
وہ دن گئے جب اردو صرف ہندوستان اور پاکستان میں سکہ رائج الوقت تھی اب یہ بین الاقوامی زبان بن گئی ہے۔ اس کااندازہ اگر آپ کوامریکہ، مشرقِ وسطی اور یورپ میں مقبولیت کی حدوں کو پار کرتے مشاعروں سے نہیں ہوتا تو یقیناآپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہمیشہ گلاس آدھا خالی نظرآ تاہے۔
امریکہ ہی کی مثال لے لیجئے، ہر سال تقریباً سینکڑوں مشاعرے ہر بڑے شہر میں بڑے اہتمام سے منعقد کرائے جاتے ہیں جن میں ہزاروں لوگ ٹکٹ خرید کرشریک ہوتے ہیں۔ اب کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مشاعرے آج کل ایک تجارت بن گئے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے اور کچھ نہیں۔ ان ہی لوگوں سے اگر آپ یہ پوچھیں کہ وہ کون سا کام ہے جو آج کل پیسے کے بغیر ہوتاہے تووہ اپنی بغلیں جھانکنے لگ جائیں گے۔
اب یہی دیکھئے کہ ہندوستان، پاکستان اور دنیا بھر سے شاعروں کے گروہ یہاں بلوائے جاتے ہیں، ان کے دام لگتے ہیں، پھر ان کومختلف شہروں میں ٹھہرایا جاتاہے، ان کے معاوضے کا بندوبست ہوتاہے اور ان کی نگرانی بھی ہوتی ہے کہ کوئی او رپارٹی نہ لے اڑے۔ یہ سب کام مفت میں تو نہیں ہوگا!
پچھلے دنوں پاکستان سے آئے ایک شاعر سے اسی سلسلے میں بات ہوئی تو کہنے لگے کہ شاعر تو اب بھیڑبکری کی طرح ہوگئے ہیں، دام لگاؤ، رہنے کاانتظام کرو اورمشاعرے کی چوکھٹ پر قربان کردو۔ میں نے پوچھا کہ حضور پھرکیوں اپنی قربانی دیتے ہیں آپ؟ کہنے لگے آپس کی بات ہے بھائی دنیا بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور اس کے پیسے بھی ملتے ہیں وہ بھی ہماری پانچ سال کی تنخواہ کے برابر۔ ہم نے کہا توپھر شکایت کیسی؟
کہنے لگے: ”بس ایسے ہی! موا یہ ضمیر تنگ کرتا ہے کبھی کبھی، ویسے آپ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا کریں، ہم شاعر ہیں۔ “
مشاعروں کے منتظمین ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ وہ مشاعروں کی محفلیں سجاکر اردو کی بے لوث خدمت کررہے ہیں، اپنی نہیں۔
بیشتر منتظمین کے لئے یہ کام کل وقتی ملازمت کی طرح ہے کہ اسی سے ان کے گھر چل رہے ہیں اور خوب چل رہے ہیں۔ اندر خانے کچھ بھی ہو، باہر سے تو یہی لگتاہے کہ اس کاروبار میں عیش ہی عیش ہے، ان کے لئے بھی اور شعرا کے لئے بھی جو اعلیٰ نسل کے ہوٹلوں میں رہتے ہیں، صبح شام بریانی اورمرغ قورمہ اڑاتے ہیں اور لیموزین میں آتے جاتے ہیں۔
منتظمین کی یہ بات بھی سوفیصد درست ہے کہ مشاعروں سے ا ردو بہت فروغ پارہی ہے۔ آج کل اخبارات میں غزلیں اور نظمیں چھپوانے کی ایک دوڑ ہے جو لگی ہوئی ہے۔ ہم نے تویہ بھی سناہے کہ شاعری کی خریدو فروخت بھی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے! کیا برا ہے اگر چند شعرا کے دن پھرجائیں تنگ دستی کے دنوں میں؟
اس میں کوئی حرج نہیں کہ مشاعروں میں شاعری کم اور لفظوں کی بے لگام پیوندکاری زیادہ ہے، کم از کم سامعین کی تفریح کا معقول انتظام تو ہوتاہے اوروہ مسکراتے ہوئے محفل سے جاتے ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ آج کوئی سنجیدہ شاعر ان مشاعرو ں میں شرکت کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ سناہے ادبی جریدوں میں چھپنے والے قابلِ احترام شعرا اور شاعرات تواب ان مشاعروں کا رخ بھی نہیں کرتے مگر یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم ہیں اور منتظمین کی خوش قسمتی کہ ان کے بغیر بھی دانہ پانی چل رہاہے ان کا۔
امریکہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ایک نہیں بے حساب ادبی انجمنیں قائم ہیں۔ خدا اردو سے محبت کرنے والے ہر صاحب ثروت کو ہمارے سروں پر قائم رکھے جنہوں نے ان انجمنوں کو سہارا دیاہے اورجن کی وجہ سے وہ بھی شعرا کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب یہ سوال بھی اتنا اہم نہیں کہ اردو کی محبت صرف مشاعروں تک محدود کیوں ہے؟ ویسے کچھ تنظیمیں تو واقعی سنجیدگی سے اردو کی خدمت کررہی ہیں اور شاعری کے علاوہ اب کہیں کہیں نثر پر بھی زور دیا جاتا ہے لیکن ان کی تعداد ایک دو سے ز یادہ نہیں۔
جہاں تک اردو کی تدریس اور لکھنے پڑھنے کا تعلق ہے تو اس مکینکل دور میں کس کے پاس فرصت ہے کہ وہ اردو کی کتابیں پڑھے اورجریدے خریدکر اپنا وقت ضائع کرے۔ شاید اسی لئے کینیڈا سمیت پورے شمالی امریکہ میں اردو کا ایک بھی جریدہ نہیں جسے لوگ پڑھیں اور ہوں بھی تو کون بے وقوف ان کو خریدکر اپنے پیسے ضائع کرے گا۔ اردو اخبارات تو بہت ہیں مگر ان میں خبریں کم اور اشتہارات ز یادہ ہوتے ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ و ہ مفت میں مل جاتے ہیں۔
اور جہا ں تک اردو کی تعلیم اور ترویج کا تعلق ہے تو اس کے تمام حقوق چچا سام نے اپنے نام لے رکھے ہیں۔ کیا اتنا کافی نہیں کہ چند امریکی یونیورسٹیز میں اردو ہندی کے شعبے قائم ہیں، تحقیقی مضامین لکھے جارہے ہیں اور گورے اردو سیکھ رہے ہیں بلکہ کچھ تو شاعری بھی کررہے ہیں لیکن سنا ہے اردو میں انکل کی یہ دلچسپی بھی اس وقت تک ہے جب تک وہ برصغیر میں براجمان ہیں۔ جس دن انکل سام افغانستان سے نکلے شاید یہ سلسلہ بھی ختم ہورہے گا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام سرگرمیوں کی جان ہند وپاک سے آئی تارکینِ وطن کی وہ نسل ہے جو اب ریٹا ئرڈ ہو چکی ہے۔ اس میں برائی بھی کیا ہے یہ نسل کم از کم مشاعروں کی حد تک سہی، اپنے ادب اور تہذیبی روایات سے لگاؤ تو رکھتی ہے! واقعی اگر یہ نہیں ہوتے تو ان مشاعروں میں اُلو بولتے۔ کچھ لوگ تو یہ بے تکا سوال بھی کرتے ہیں کہ اس نسل کے بعد یہاں کون اردو بولے گا اور مشاعرے کرائے گاکہ ان کے بیٹے اور بیٹیا ں تو اردو سے بہت دور بھاگتے ہیں؟ لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔
رہی بات ہمارے دوست بنیاد سیلانی کی تووہ اب مقبول شاعر بن چکے ہیں بلکہ ایک عدد مجموعہ کلام ”گلہائے سیلانی“ کے عنوان سے شائع بھی کرچکے ہیں۔ ہمیں بھی اس کی ایک مفت کاپی دینے آئے توہم نے پوچھا ”یہ مزاحیہ شاعری ہے یا سنجیدہ؟“
کہنے لگے ’’میں تو سنجیدہ شعر ہی کہتا ہوں، لوگ اسے مزاحیہ سمجھتے ہیں تو میری ہمت افزائی ہے۔ اب آپ میرا یہ شعر دیکھ لیجئے:
ہم لائے ہیں طوفان سے اردو نکال کے
ان شعروں کو رکھنا مرے بچو سنبھا ل کے!“
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔