فاروق طارق
بالآخر گزشتہ روز ممبران قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کی ضمانت منظور ہو گئی اور ہائی کورٹ بنوں بینچ نے دونوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس سے قبل دہشت گردی کی بنوں عدالت نے دونوں کی درخواست ضمانت کو رد کر دیا تھا۔
دونوں اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے سینئر وکیل لطیف آفریدی، سنگین خان ایڈووکیٹ اور طارق افغان نے نمائندگی کرتے ہوئے عدالت میں دلائل دئیے اور کہا کہ ان دونوں کے خلاف جھوٹے کیس بنائے گئے تھے۔ تمام دستاویزی ثبوت ان کی بے گناہی کی گواہی دے رہے ہیں۔
اخری اطلاعات تک دونوں رہنماؤں کو ابھی رہا نہیں کیا گیا ہے۔
علی وزیر اور بعد ازاں محسن داوڑ کو اس سال مئی کے آخری دنوں میں گرفتار کر کے الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی قیادت میں خڑقمر فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ اُس روز علی وزیر اور محسن داوڑ ایک دھرنے میں شریک ہونے اس علاقے میں پہنچے تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بیشتر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر ان کے نہتے جلوس پر فائرنگ سے تیرہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ جنہیں ابتدائی طور پر دہشت گرد قرار دیا گیا تھا مگر بعد ازاں وزیر اعلیٰ نے انہیں شہید قرار دے کر بیس بیس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے ان دو مقید رہنماؤں سے جیل میں جو سلوک روا رکھا گیا وہ غیر معمولی طور پر غیر انسانی تھا۔ 18 جولائی کو جب سینئر ایڈووکیٹ شہاب خٹک نے علی وزیر کے چھ کمسن بچوں کی ملاقات تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کرانے کی کوشش کی تو بھی ان بچوں کو جیل میں اپنے باپ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی ان دونوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی عائد تھی۔
اس سے قبل علی وزیر کو بنوں کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تو کوئی عدالتی پیش رفت نہ کرنے کے لئے جج صاحب ہی اس روز عدالت نہ آئے۔ یہ کئی دفعہ ہوا کہ جج صاحب عدالت میں تشریف نہ لاتے تھے۔
یاد رہے کہ خڑقمر چیک پوسٹ پر فائرنگ کے واقعے اور گرفتاریوں سے قبل ایک پریس کانفرنس میں جنرل آصف غفور نے ان کے خلاف خاصے سخت بیانات دئیے تھے۔ یہ ایک طرح سے دھمکیوں سے بھرپور پریس کانفرنس تھی۔
مگر اس پریس کانفرنس کے بعد دونوں ممبران قومی اسمبلی کی طرف سے پیش کردہ ایک بل پر پوری قومی اسمبلی نے متحد ہو کر 26ویں آئینی ترمیم منظور کی تھی۔
عوام کے لئے یہ بات ہضم کرنا ذرا مشکل تھا کہ کل تک علی وزیر اور محسن داوڑ کے ایک پرائیویٹ بل پر آئین کی 26ویں ترمیم تمام اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ اس وقت تو عمران خان بھی ان کی تعریفیں کر رہا تھا۔ لیکن یکایک یہ دونوں شرپسند اور ملک دشمن کیسے ہو گئے؟
علی وزیر اور محسن داوڑ کی اس وقت رہائی کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔ ان کی گرفتاری بھی ایک سیاسی فیصلہ تھا اور ان کی اب رہائی بھی ایک سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔
اکتوبر 2019ء میں مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ مسلم لیگ نواز نے بھی ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ مولانا کی زیادہ حمایت سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ہی ہے جہاں پر پشتون تحفظ موومنٹ کی بھی ایک بڑی حمایت سب پر واضح ہے۔ حکومت نے شاید سوچا ہو کہ اگر پی ٹی ایم نے بھی اس دھرنے کی حمایت کر دی تو ان کے لئے بڑی مشکل ہو جائے گی۔
ایک اور عنصر یہ بھی ہے کہ ان رہنماؤں کی سابقہ فاٹا میں انتخابات سے قبل گرفتاری کا مقصد پی ٹی ایم کو مزید نشستیں جیتنے سے روکنا تھا۔
تیسرا یہ کہ کشمیر بارے حکومتی موقف کافی کمزور پڑ جاتا تھا جب یہ دلیل دی جاتی تھی کہ جو بھارتی حکمران کشمیریوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ یہاں بھی قومی حقوق کا مطالبہ کرنے والے رہنماؤں کیساتھ کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان دونوں کی رہائی سے حکومت اپنا کشمیر موقف شاید مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
بہرحال یہ ایک خوشگوار پیش رفت ہے۔ اس گرم اور حبس زدہ موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ دونوں ممبران پارلیمنٹ پاکستان‘ بالخصوص پشتون علاقوں کے مقبول ترین رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ رہائی کے بعد عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔