پاکستان

اعظم سواتی پہ جنسی تشدد پر شور، دیگر ریپ وکٹمز کی دفعہ ’مرد روبوٹ نہیں‘

عافیہ شہر بانو ضیا

کچھ مبصرین اس بات پر معترض ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی پر سرکاری حراست میں جو مبینہ جنسی تشدد ہوا، جس سے ریاستی/سرکاری ادارے بدنام ہوئے…اس واقعہ پر ترقی پسند حلقے خاموش رہے۔

بلا شبہ اس نوع کے ریاستی تشدد کی بھر پور مذمت ہو نی چاہئے۔ سینیٹر سواتی کے اس حق کی بلا مشروط حمایت ہونی چاہئے کہ انہیں آزادانہ رائے دینے کی کھلی چھوٹ ہونی چاہئے چاہے اس کی ضد میں ریاست کا کوئی بھی ادارہ یا اہل کار آتا ہو۔ اعظم سواتی کے واقعہ سے البتہ کچھ مزید اسباق بھی ملتے ہیں۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کس مظلوم کا ساتھ دینا ہے، اس کا فیصلہ ظلم کی مخالفت میں نہیں کیا جاتا۔ فیصلہ تعصبات کی بنیاد پر یہ دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ ظالم کون تھا، مظلوم کون۔

جو لوگ ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دے رہے تھے حالانکہ طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اب بغیر ثبوت کے بضد ہیں کہ عمران خان پر حملہ موجودہ حکومت نے کرایا۔

جب عمران خان نے جنسی جرائم کا شکار ہونے والی خواتین کو ہی یہ کہہ کر مورد الزام ٹھرایا کہ مرد روبوٹ تو نہیں لہٰذا عورت کا بے پردہ ہونا مردوں کو مشتعل کرتا ہے تو بہت سے لوگ عمران خان کا دفاع کر رہے تھے۔ اس بات پر عمران خان کا ساتھ دینے والے اب یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ کچھ سرکاری اہل کار بھی ’اشتعال‘ میں آ سکتے ہیں…وہ کوئی روبوٹ تھوڑی ہوتے ہیں۔

بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور حزب اختلاف کے کارکنوں کو غدار قرار دینے والے محب وطن اب سیاسی مداخلت کے الزام میں فوج کو گالیاں دے رہے ہیں اور بالکل بھی نہیں سوچ رہے کہ اس طرح ملک بدنام ہوتا ہے یا افواج پاکستان کا مورال ڈاون ہوتا ہے۔

دوہرے معیار کا یہ رجحان اعظم سواتی اور شہباز گل پر مبینہ تشدد کے حوالے سے بھی واضح ہے۔ مبینہ طور پر دونوں کے ساتھ جو جنسی زیادتی ہوئی اس کی وجہ سے ان دونوں کے ساتھ مرد حضرات نے بہت زیادہ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اگر دونوں پر روایتی جسمانی تشدد ہوا ہوتا تو شائد اتنا شدید رد عمل نہ آتا۔

مرد سے مرد کی زیادتی کو معمول کی جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی، ہتک، گالی یا لطیفے جن میں عورت، ٹرانس وومن یا نان بائنری لوگوں کی تضحیک کی جاتی ہے…سے زیادہ بڑی زیادتی ہے۔

تضحیک پر مبنی حملے، ذو معنی باتیں اور طنزیہ میمز کے ذریعے خواتین سیاستدانوں کی شناخت کو محض جنس تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ جنسی بنیاد پر ہونے والے تشدد میں بھی صنف کی بنیاد پر فرق برتا جاتا ہے۔ عورت اس کا شکار بنے تو اسے چپ چاپ یہ جبر سہنا ہوتا ہے ورنہ مرد حضرات قبول نہیں کریں گے لیکن شہباز گل اس تشدد کا ذکر طنزیہ انداز میں کرکے اس جرم کی درندگی کو کم کر سکتے ہیں۔

اگر کچھ خواتین بولنے کی ہمت کریں تو ان پر طرح طرح کی تہمت لگا کر انہیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر رد عمل یہ ہوتا ہے کہ مظلوم عورت کی بات پر یا تو یقین نہیں کیا جاتا یا اس سے کبھی کبھار ہمدردی ظاہر کر دی جاتی ہے۔ جب اعظم سواتی اور شہباز گل میل سروائیور (Male Survivor) کے طور پر بات کرتے ہیں تو سب یقین کر لیتے ہیں اور جذباتی میڈیا کھل کر ان کی حمایت کرتا ہے۔

جنسی تشدد کا شکار ہونے والے ہر شخص پر اعتبار کرنا چاہئے۔

نوے کی دہائی میں زیر حراست خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی تھی۔ انسانی حقوق کے جو کارکن اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے انہیں ’ریاست دشمن‘ اور ’مغرب کی فیمن اسٹ ایجنٹس‘ کہا جا رہا تھا۔ 1991ء میں ہیومن رائٹس واچ نے دعویٰ کیا کہ پولیس کی حراست میں 70 فیصد خواتین جیلر کے ہاتھوں جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنتی ہیں۔ 50 تا 70 فیصد خواتین بارے کہا گیا کہ انہیں حدود قوانین کے تحت بغیر قانونی کاروائی کے،محض الزام کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس کے خلاف کاروائی کے حوالے سے جو قانونی پیچیدگیاں تھیں ان کے پیش نظر زیر حراست خواتین کے خلاف تشدد بغیر ڈر خوف کے کیا جاتا تھا۔ عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین اور حدود کے قوانین پر کاری عمل درآمد کا نتیجہ تھا کہ ریاست اور مرد حضرات خواتین کی جنسیت کو قابو میں رکھ سکتے تھے۔ گویا اگر کوئی عورت جنسی حدود کی خلاف ورزی کرے تو اسے سزا دی جائے۔

اُس دہائی کے دوران سیاسی قوتوں کی آپسی لڑائی سے سیاسی طبقہ کمزور ہوا اور شہریوں کے جمہوری تحفظ میں کمی واقع ہوئی۔ اس خلا کی وجہ سے ریاستی زیادتیوں میں اضافہ ہوا یوں پولیس کے لئے زیر حراست خواتین آسان شکار بن گئیں لہٰذا جیلوں اور تھانوں میں ان کے خلاف جنسی جرائم ہوئے۔

تمام با اصول مرد حضرات سویلین ہیں یا فوجی، لبرل ہیں یا قدامت پسند انہیں اپنے تعصبات کی بنیاد پر متحد ہو کر مطالبہ کرناچاہئے کہ کہ جنسی زیادتی کسی کی ’عزت‘ پر حملہ نہیں ہوتا، یہ جسمانی حملہ ہوتا ہے۔ یہ حملہ ذہنی عدم تحفظ پیدا کرتا ہے اور انسان کے وقار پر حملہ ہوتا ہے۔

جب تک تمام جینڈرز، صوبوں اور طبقوں کے مابین معاشی، سماجی اور سیاسی برابری پیدا نہیں ہوتی، طاقت کی زبان میں بات ہوتی رہے گی۔

سیاست میں فوج کی مداخلت پر تنقید کرنے والے یا سیاستدانوں پر تشدد کے ناقدین کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جب سیاسی جماعتیں آپس میں تعاون نہیں کرتیں جمہوری فقدان جنم لیتا ہے جس میں امتیازی قوانین اور ریاستی طاقت کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ اور کمیونیٹیز میں پائے جانے والی مردانگی والے تعصبات کا غلط استعمال کسی بھی جینڈر کے خلاف ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ظلم کا شکار ہونے والے کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

اعظم سواتی کی بلا مشروط حمایت کرنے والے اس بات کو تسلیم کریں کہ جنسی تشدد کا شکار بنے والے ہر انسان چاہے وہ ماضی میں بنا یا حال میں، مرد تھا عورت تھا یا کسی اور جینڈر سے تعلق تھا، اس کی بات پر یقین کیا جائے گا اور اس کی حمایت کی جائے گی۔ اس کے بعد ہی جنسی جرائم، ٹارچر، ہراسانی کے سوال پر ہم سب سیم پیج پر ہوں گے اور سیاسی بدلے لینے کی بجائے جمہوریت کو پروان چڑہاپائیں گے۔

بشکریہ: ڈان

Afia Zia
+ posts

آفیہ ضیا محقق اور مصنف ہیں۔ انکی درجنوں کتابیں اور مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کالم ’دی نیوز آن سنڈے‘اور ’ڈان‘ میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ’فیتھ اینڈ فیمینزم‘ ہے۔