لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان ہر ماہ قرضوں کی ادائیگی اور سود کی مد میں 1 ارب ڈالر سے زائد ادا کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کا روول اوور بھی ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے۔ 2015ء میں 1.3 ارب ڈالر سے 2022ء میں تقریباً 12 ارب ڈالر کے ساتھ اس میں 9 گنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ معلومات تیسری دنیا میں قرضے منسوخ کروانے کیلئے سرگرم عالمی تنظیم ’سی ٹی ڈی ایم‘ کے پاکستان میں فوکل پرسن عبدالخالق نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کے حوالے سے لکھی ہے۔
انکے مطابق پاکستان کا ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد کے خطرے کے زون میں ہے اور رواں سال سود کی ادائیگی کیلئے مختص سرکاری محصولات کا 40 اور 50 فیصد کے درمیان ہے۔ صرف دیوالیہ سری لنکا، گھانا اور نائیجیریا اس سے بری صورتحال میں ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور یقینی ڈیفالٹ کے درمیان ہے، جس میں پہلی صورت میں افراط زر کی شرح 35 فیصد اور دوسری صورت میں 70 فیصد سے زائد ہے۔
اس وقت پاکستان کے کل بیرونی قرضے اور واجبات 127 ارب ڈالر (جی ڈی پی کا 41 فیصد) تک پہنچ چکے ہیں، خود مختار بانڈز اپنی مالیت کا 60 فیصد سے زائد کھو چکے ہیں، برآمدات کم ہو کر 7 فیصد رہ گئی ہیں، ترسیلات زر 11 فیصد تک گر گئے ہیں اور فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ 59 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو 3 سال (مالی سال 23ء اور 25ء) کے اندر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے 73 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین شائع شدہ آئی ایم ایف کنٹری رپورٹ کے مطابق موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 4 سے 5 ارب ڈالر ہیں۔
حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے کامیاب جائزے کے مطالبات کے سامنے مکمل سرتسلیم خم کرنے کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی افراط زر کی شرح میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق سالانہ افراط زر جنوری 2023ء میں 27.55 فیصد کی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جو مئی 1975ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں افراط زر میں سال ہا سال بالترتیب 24.38 اور 32.26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر کا رجحان تقریباً تمام ذیلی اشاریوں میں دوہرے ہندوسوں میں اضافے سے ہوا ہے، خاص طور پر خوراک اور ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی برآمدت کا 60 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ ریاست درآمدات کیلئے فنڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے، ضروری اشیائے خوردونوش، خام مال اور طبی آلات کے کنٹینرز بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں۔ بینکوں نے درآمد کنندگان کیلئے نئے لیٹرآف کریڈٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے ملک میں گندم کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ گندم کا آٹا، جو پاکستانیوں کی خوراک کا اہم حصہ ہے، اس کی قیمتیں جاری بحران میں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ شہریوں کو آٹے کے سبسڈی والے تھیلوں کیلئے لمبی قطاروں میں انتظار کرتے دیکھا جا سکتا ہے،کیونکہ سبسڈی والے آٹے کی سپلائی بہت کم ہے۔
پاکستان دنیا کا 8 واں سب سے بڑاگندم پیداکرنے والا ملک ہے، جو اب اس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 75 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کر رہا ہے۔