پاکستان

پاکستان میں زلزلوں کی تاریخ پر ایک نظر

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں منگل 24 ستمبر کو آنے والا درمیانے درجے کا زلزلہ بھاری جانی و مالی نقصان کا موجب بنا ہے۔ منگل کی سہ پہر چار بجے آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.8 بتائی گئی ہے جسکا مرکز جہلم سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پرتھا اور گہرائی دس کلومیٹرہونے کی وجہ سے یہ زلزلہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپورکے متعدد علاقوں کے لئے خوفناک نتائج لیکر سامنے آیا۔

ابھی تک سرکاری سطح پر مرتب کئے جانے والے ریکارڈ کے مطابق زلزلے کے باعث 38 ہلاکتیں اور 646 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بھمبر اور میرپور کے درمیان ایک مرکزی پل کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دو چھوٹے پل تباہ ہوئے ہیں، میرپور کے سب ڈویژن جاتلاں کی مرکزی شاہراہ زمین میں دھنس گئی ہے جسکی وجہ سے مختلف علاقوں تک زمینی رسائی میں مشکلات کا سامنا ہوا اور امدادی سرگرمیوں میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

زلزلے سے نیو سٹی میرپور، کھڑی شریف اور جاتلاں کے نہر اپر جہلم سے ملحقہ علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جن میں چتر پڑی، ننگیال، افضل پور، پل منڈا، کیکری، بنی ساہنگ اور دیگر شامل ہیں جومکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ تمام مکانات اور تعمیرات زمین بوس ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے اربوں مالیت کے نقصانات ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ میرپور شہر منگلا ڈیم کے کنارے پرآباد ہے، تاہم تاحال منگلا ڈیم کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے کی اطلاعات فراہم کی جا رہی ہیں۔

متاثرین زلزلہ کی ایک بڑی تعداد کھلے آسمان تلے بارش کے موسم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے، گزشتہ دو ایام میں آفٹر شاکس کے علاوہ 3.5اور3.2شدت کے دو زلزلے مزید اسی علاقے میں آ چکے ہیں جس کی وجہ سے آبادی کی بڑی اکثریت مکانات اور عمارتوں کے اندر جانے سے گھبرا رہی ہے۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت اور پاکستان اور کشمیر کی غیر سرکاری تنظیموں نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز تو کر لیا ہے لیکن خود وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے میڈیا کے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ بوسیدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے دور دراز دیہاتوں میں پھیلی آبادیوں تک رسائی حاصل کرنے میں امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں تاحال متاثرین کی اکثریت خیموں اور ضروری اشیا سے محروم ہے۔

پاکستان دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک جو درمیانے درجے کے زلزلوں سے بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنے کرتے ہیں‘ میں شامل ہے۔ زلزلوں کی شدت کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو معمولی، درمیانے اورشدید نوعیت پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسی طرح انکی گہرائی کو بھی تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تباہی کا موجب بننے والے زلزلے درمیانے درجے کے قرار دیئے جاتے ہیں لیکن ان کے نقصانات بہت زیادہ رہے ہیں۔ درمیانے درجے کے زلزلے عموماً اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں جب انکی گہرائی پچاس کلومیٹر سے کم ہو۔ پچاس سے تین سو کلومیٹر تک گہرائی کے حامل درمیانے درجے کے زلزلے کم تباہ کن ہوتے ہیں۔

جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق میرپورمیں زلزلہ جہلم کی فالٹ لائن میں سٹرائیک سلپ کی وجہ سے آیا ہے۔ سٹرائیک سلپ میں زمین کے دو حصے اپنی الٹ سمت میں حرکت کرتے ہیں اور یہ فالٹ لائن جہلم سے کوہالہ اور مظفرآباد کے درمیانی علاقوں تک جاتی ہے، منگلا ڈیم اورنیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ بھی اسی فالٹ لائن پر قائم ہیں، جبکہ کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ بھی اسی فالٹ لائن پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور ہمالیائی خطے کے علاوہ پاکستان کا پوٹھوہار خطہ، ہزارہ، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کا شہر کوئٹہ زلزلوں کی تقسیم کار میں شدید ترین زلزلوں کے خطرات سے دوچار زون میں شامل کئے گئے ہیں۔ پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر شامل ہے جبکہ یوریشیائی اور عرب پلیٹیں بھی یہاں سے گزرتی ہیں۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کے باعث زمین کی سطح کے ابھار کا سلسلہ لاکھوں سال سے جاری ہے اور ماہرین ارضیات کے مطابق اسی طرح سے ہمالیائی پہاڑوں کا ابھار ہوا ہے اور انکے ابھارمیں تین سینٹی میٹر تک کا سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اکتوبر 2005ء میں بھی کشمیر اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں اور لاکھوں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مظفرآباد، باغ، بالاکوٹ اور راولاکوٹ سمیت متعدد شہر اور دیہات مکمل تباہ ہو گئے تھے۔ اسی طرح ستمبر 2013ء میں بلوچستان میں خوفناک زلزلے کے باعث سینکڑوں اموات اور انفراسٹرکچر کے بھاری نقصانات ہوئے تھے۔

ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کی اوپری سطح جسے کرسٹ کہا جاتا ہے وہ میگما کہلانے والے کھولتے ہوئے لاوے پرمختلف چٹانوں کے ٹکڑوں کی مانند قائم ہے جنہیں ٹیکٹونک پلیٹیں کہا جاتا ہے۔ میگما میں گرمی اور پریشر بڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے پلیٹوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حرکت کی وجہ سے پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں جس سے ارتعاش پیدا ہوتی ہے جسے زلزلہ کہاجاتا ہے۔

کرہ ارض کی حرکت میں کمی کی وجہ سے خط استوا کے قطر میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسکی وجہ سے کرسٹ کی پلیٹیں اپنے آپ کو کم قطر میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے اوپر سرک رہی ہیں۔ جس کیوجہ سے نہ صرف زلزلوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ زمین کی سطح پرمزید پہاڑی سلسلے ابھرنے اور آتش فشاں بننے کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی ہمالیہ سمیت تمام پہاڑی سلسلے اسی طرح سے بنے ہیں۔ زمین کی حرکت میں کمی واقع ہونے اور ٹیکٹونک پلیٹوں کے آپس میں ٹکراؤمیں تیزی آنے کی وجہ سے ماہرین ارضیات نے آنیوالی دہائیوں کو شدید زلزلوں سے بھرپوردہائیاں قرار دیا ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں سرمایہ داری اپنے کلاسیکل انداز میں نہیں آئی بلکہ اسے سامراجی بنیادوں پر پیوست کیا گیا ہے وہاں یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں کی طرح جدید صنعت اور انفراسٹرکچر سمیت قومی جمہوری انقلاب کے دیگر فرائض کی تکمیل نہیں ہو سکی۔ بلکہ حکمران طبقات تاخیر زدگی کے باعث معاشروں کو ترقی دینے کی اہلیت سے عاری رہے، جدید تکنیک اور افراسٹرکچر کی عدم موجودگی میں منافعوں اور لوٹ مار کیلئے نہ صرف اس خطے کے ماحول کو برباد کیا گیا بلکہ زندگی کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ سرمایہ داری کے سامراجی کردار کے تسلط کی وجہ سے یہاں ناہموار ترقی نے دیہی اور شہری زندگی میں نہ صرف خلیج کو گہرا کیا ہے بلکہ اس خطے کو انسانوں کیلئے ناقابل رہائش بنا دیاہے۔

یہ معاشرے جدت اور پسماندگی کے ایسے امتزاج میں ڈھل چکے ہیں کہ ایک وقت میں انسانی زندگی کو سہل بنانے والی سرمایہ کاری بھی مزید تباہ کاریوں اور زندگیوں کیلئے سنگین خطرات کا موجب بن جاتی ہے۔ حکمران طبقات نے ماہرین ارضیات کی رپورٹس اور تمام جیولوجیکل سروے رپورٹس کو پس پشت ڈالتے ہوئے فالٹ لائن کے زون فور میں زلزلے کے شدید خطرات سے دوچار خطے میں نہ صرف منگلا ڈیم سمیت دیگر ہائیڈل پراجیکٹس کی تعمیر کا کام کیا ہے۔ اور ان تعمیرات کو زلزلہ پروف بنانے کے اقدامات بھی نہیں کیے گئے۔ بلکہ آبادیوں کو محفوظ بنانے کی بجائے انہیں قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

میرپور سے تعلق رکھنے والے صحافی سردار عتیق احمد کا کہنا ہے کہ”میرپور شہر فالٹ لائن پر موجود ہے، یہاں 1962ء سے 1967ء کے دوران گیارہ سو میگاوٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کے حامل منگلا ڈیم کی تعمیر کیلئے پرانے میرپور شہر کو پانی کی نذر کر دیا گیا تھا، جس کے بعد میرپور شہراز سر نو ڈیم کے کنارے پر آباد کیا گیا، جبکہ ہزاروں خاندانوں کوپنجاب کی بنجرزمینوں پرمنتقل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی اس خطے کوفالٹ لائن پرہونے کے حوالے سے ماہرین نے خبردار کیا تھا لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہ دی، بعد ازاں جب 2000ء میں منگلا ڈیم کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بنایا گیا توایک مرتبہ پھر میرپور کے لوگوں کو گھر بار چھوڑنے کیلئے کہاگیا اور نیوسٹی میرپور کے نام سے منصوبہ بناکر وہاں زمینیں متاثرین کو الاٹ کی گئیں۔ اس وقت بھی ماہرین ارضیات نے خبردار کیا تھا کہ زلزلہ کے شدید خطرات سے دوچار اس خطے میں ڈیم کی مزید اپ گریڈیشن نہ کی جائے، حتی کہ جہاں متاثرین کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا وہ جگہ بھی فالٹ لائن کے اوپرواقع ہے۔ ا پ گریڈیشن کے عمل کے آغاز کے دوران ہی 2005ء کا تباہ کن زلزلہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے بڑے حصے کو زمین بوس کر گیا، لیکن خوش قسمتی سے میرپور کا علاقہ زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد ماہرین ارضیات نے متعدد رپورٹس جاری کرتے ہوئے نہ صرف ڈیم کی اپ گریڈیشن کو روکنے کا کہا بلکہ نیو سٹی میں متاثرین کی آباد کاری کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے متبادل جگہ پر آبادی کو منتقل کرنے کا بھی کہا گیا لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ حالیہ زلزلے سے نہر اپر جہلم کا نزدیکی علاقہ زیادہ متاثر ہوا ہے جس کی ایک وجہ زمین کے نیچے پانی کی سطح کا انتہائی بلند ہونا ہے جبکہ بڑی وجہ ناقص تعمیرات، کچے مکانات اور عمارتوں کی تعمیرات رہی ہے۔ زمین کے نیچے پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث نہر اپر جہلم سے ملحقہ زمین دھنس گئی اور دو کلومیٹر سڑک بھی دھنس چکی ہے۔ مستقبل میں زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر کے علاوہ فالٹ لائن پر بڑے منصوبہ جات کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا تو نہ صرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آبادی کو بڑے نقصان کا خدشہ ہے بلکہ منگلا ڈیم کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان سے پنجاب کے کئی شہر تباہ ہونے کا خدشہ موجود ہے‘‘۔

گزشتہ دو دہائیوں سے زلزلوں کی تباہ کاریوں اور ماہرین کے انتباہ کے باوجود پاکستانی حکمران زلزلے کے خطرات سے آبادی کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر سکے، تیرہ سال قبل آنے والے زلزلہ کے نقصانات کا ازالہ تاحال نہیں ہو سکا تھا کہ ایک اور آفت نے اس خطے کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فالٹ لائن پرموجود اس خطے کے جغرافیائی پھیلاؤ اور پاکستانی معیشت کی زوال پذیری اور تاریخی تاخیر زدگی سمیت سرمایہ دارانہ لوٹ مار وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس خطے پربسنے والے کروڑوں انسانوں کو زلزلوں کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنے سے یہ حکمران مکمل طورپر قاصر ہیں۔ اس نظام کی موجودگی میں ماحولیاتی آلودگی، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات اس خطے کے انسانوں پر قہر بن کر ہی برستے رہیں گے۔

اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کوآگے بڑھتے ہوئے اپنی تقدیر خود لکھنے کے عمل میں حصہ دار بننا ہوگا۔ اس خطے میں وسائل اور صلاحیت اس قدر موجود ہے کہ اسے اگرمنصوبہ بندی سے استعمال میں لایا جائے اورسرمایہ دارانہ منافعوں کی لوٹ مار کا خاتمہ کرتے ہوئے پیداوارکے مقصد کو انسانی ضروریات کی تکمیل سے تبدیل کیا جائے تو نہ صرف نئی منصوبہ بند اور قدرتی آفات سے محفوظ بستیاں آباد کی جا سکتی ہیں بلکہ انہیں تمام تر بنیادی سہولیات سے آراستہ کرتے ہوئے اس خطے کو انسانیت کیلئے جنت کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ محنت کش طبقے کی یہ انگڑائی نہ صرف اس خطے کی تاریخ کا دھارا موڑنے کا باعث بنے گی بلکہ بالخصوص جنوب ایشیا اور بالعموم پوری دنیا کیلئے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔