تاریخ

راجہ پورس: پاکستان میں تاریخ کی اسلامائزیشن کا شکار

ڈاکٹر مظہر عباس

راجہ پورس کو اس خطے کی تاریخ سے الگ نہیں کیا جا سکتا، خواہ کوئی بھی کوشش کیوں نہ کی جائے۔

اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم نے بھارت اور پاکستان میں ملکی و قومی تعمیر میں مذہب کو ایک خاص جگہ دی، جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیرو، مخیر حضرات اور بے نظیر انسانی روحوں کو مسترد کر دیا گیا۔ نتیجتاً ہماری تاریخ، متن اور علمی تصانیف کے صفحات سے بہت سے باصلاحیت اور قابل افراد کو خارج کر دیا گیا ہے۔

اس تحریر کا مقصد اس سرزمین کے ایک تاریخی کردار یعنی راجہ پورس کے کردار کو اجاگر کرنا ہے، جس نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے فاتح سکندرِ اعظم کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی تھی۔ اگرچہ راجہ پورس ایک مقامی ہیرو تھا،جس نے سکندر کے حملے کے خلاف بے مثال جرات اور بہادری کے ساتھ اپنی سرزمین کی سرحدوں کا دفاع کیا تھا، لیکن اس کا تذکرہ ہمیں مقامی ادب کی بجائے فارسی ادب میں ملتا ہے۔ راجہ پورس کا مقامی ادب اوربحث و مباحثہ میں تذکرہ نہ ملنے کی بالعموم وجہ اس کا عقیدہ، یعنی غیر مسلم ہونا، بتائی جاتی ہے۔

راجہ پورس کو ایک انتہائی بہترین جنگجو اور فوجی رہنما سکندرسے جنگ لڑنا پڑی، جو ساری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ پنجاب پر حملہ کرنے سے پہلے سکندر نے مقدونیہ اور ہندوستان کے درمیان دنیا کے بیشتر حصوں کو فتح کر لیا تھا،جن میں مصر، عراق، اور ایران شامل تھے۔ اپنی عسکری مہموں کے دوران اس نے بہت سی سلطنتوں، قوموں اور قبائل کے مضبوط مخالفین اور طاقتور دشمنوں کو کامیابی سے زیر کر لیا تھا۔ اس کی مہم جوئی کے سفر کے دوران صرف دو حکمرانوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن میں فارس کا شہنشاہ ڈیریس سوئم جسے ”بادشاہوں کا بادشاہ“ بھی کہا جاتا ہے اور پوروا کا بادشاہ پورس شامل ہیں۔ اؤل الذّکر 331ء قبل مسیح میں اسُوس کی جنگ میں شکست کا احساس ہونے کے بعد میدانِ جنگ سے فرار ہو گیا، جب کہ مؤخر الذّکر نے 326ء قبل مسیح میں ہائیڈاسپیس (دریائے جہلم) کی مشکل ترین جنگ میں سکندر کی پیش قدمی کوروکا۔

جہلم کے مہاراجہ پورس نے ٹیکسلا کے مہاراجہ آمبھی کے برعکس، سکندر کے خلاف مزاحمت کا انتخاب کیا، جس کی معلومات ہمیں یونانی ادب اور دیگرذرائع سے ملتی ہیں۔ سکندر نے اپنا ایلچی پورس کے پاس بھیجا اور اسے کہا کہ وہ اس کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے خراج دینے پر راضی ہو جائے۔ تاہم پورس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور ایلچی سے کہاکہ، ”ہم میدانِ جنگ میں ملیں گے۔“ پھر وہ میدانِ جنگ میں ہی ملے۔ اگرچہ سکندر نے یہ جنگ جیت لی،تاہم یہ اس کی زندگی کی آخری جنگ ثابت ہوئی۔ اسے اپنی مہم روک کر دنیا کے دوسرے کونے تک پہنچنے کا خواب ترک کرنا پڑا۔ پلوٹارک بتاتا ہے کہ یونانیوں نے بادشاہ پورس کو”بڑی مشکل“ سے شکست دی۔

ہائیڈاسپس کی جنگ کے بعد پورس کو سکندر کے سامنے لایا گیا۔ سکندر نے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ پورس نے جواب دیا: ”بادشاہ کی طرح“۔ پورس کی ہمت اور بہادری سے سکندر اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اس کے ساتھ ایک باوقار طریقے سے پیش آیا۔ اس ساری معلومات کا ماخذ یونانی، یعنی فاتحین کا ادب ہے۔

تاہم برصغیر پاک و ہند کے برطانوی نو آبادیات نے اس کہانی کو بالکل مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سکندر کو ایک مرکزی کردار اور ہیرو کے طور پر جبکہ پورس کو ایک ولن کے طور پرپیش کرنے کی سعی کی ہے۔ مثال کے طور پر، ’CA Hagerman‘ کی کتاب ’In the Footsteps of the Macedonian Conqueror: Alexander the Great and British India (2009)‘ کہانی کا یورپی سامراجی ورژن پیش کرتی ہے۔

اس کے برعکس کچھ مقامی مصنفین اس جدیدیورپی سامراجی ورژن پر سوال اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستانی مورخ بدھا پرکاش کی کتاب ”پورس دی گریٹ“ اور اعتزاز احسن کی ”دی انڈس ساگا اینڈ دی میکنگ آف پاکستان“ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ان کے درمیان فتح/ہار کی بائنری کے بجائے باہمی سمجھوتا ہوا۔

پرکاش کا کہنا ہے کہ ”ان دونوں (الیگزینڈر اور پورس) کی جنگ یا لڑائی اور حتمی نتائج کے بارے میں تجزیہ نگاروں کے اپنے اپنے خیالات تھے۔ ان میں سے یونانی نسخہ/ماخذبچ گیا، اگرچہ وہ بے ترتیب اور متضاد ایڈیشنوں میں ہے، جبکہ ہندوستانی ورژن بے حسی اور فراموشی کی دھندوں میں گزر چکا ہے۔“

اعتزاز احسن نہ صرف پرکاش کے بیانیے کی توثیق کرتے ہیں، بلکہ پورس کو ایک پنجابی شہزادے اور فاتح کے طور پر سراہتے ہیں۔ وہ نہ صرف کہانی کے جدیدیورپی سامراجی ورژن پر سوال اٹھاتے ہیں اور یونانی ذرائع پر بھی شک کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ”سکندر اتنی قدآور شخصیت تھا کہ اس کا نام (سکندر) سندھ کے بعد کے مسلمان شہریوں نے بھی اپنایا اور بہت سے لوگوں نے اپنے بیٹوں کا نام اس کے نام پر رکھا۔ پورس اور اس کا نام بھی سندھ میں اسلام کی آمد سے پہلے تھا، لیکن مقامی ہیرو اور سر زمین کے سپوت (پورس) کے نام پر کوئی بھی اپنے بیٹے کا نام نہیں رکھتا، جس نے کسی نہ کسی طرح فاتح (سکندر) کی فتوحات کی پیش قدمی کو مکمل طور پر روکا تھا۔“

اعتزاز احسن کے تجزیے سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ راجہ پورس کو اس کے عقیدے، یعنی غیر مسلم ہونے، کی وجہ سے بیگانہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا ممکنہ طور پر سکندر کا ابھار اور پورس کا اتار ہندوستان میں عقائد، یعنی اسلام اور ہندو مت، کی دشمنی کی وجہ سے تھا۔ تاہم راجہ پورس کا عقیدہ متنازعہ تھا۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پورس ایک ہندو تھا، جبکہ بعض کا دعویٰ ہے کہ وہ بدھ مت تھا۔ ہمارے ہاں سکندر کے ابھار کے بارے میں احسن کے تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر رفیع اللہ خان کا خیال ہے کہ اس کی وجہ فارسی ادب جیسا کہ شاہنامہ اور سکندرنامہ مسلم ایران کے اثرات ہیں۔

ہندوستان کے مسلمانوں میں سکندر کے زندہ رہنے کی وجہ کچھ بھی ہو، پورس نوآبادیاتی دور کے بعد کی مغربی پنجاب کی نصابی کتابوں اور علمی تحریروں سے بالکل غائب ہے۔ پورس کو ہیرو کہنے یا اس کے عقیدے کی بنیاد پر اسے ولن کہنے کے بجائے، ہمیں اسے اپنے مقامی کردار کے طور پر قبول کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، کیونکہ اس نے تاریخ انسانی کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک کا راستہ روکا تھا۔ بلاشبہ وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے، جسے ہم بھلا نہیں سکتے۔

گو ہمیں بادشاہوں کی تاریخ کو گلوریفائی کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن ہمیں عقیدے سے بالا تر ہو کر، ہماری نصابی کتابوں میں ہمارے مقامی کرداروں، جیسا کہ راجہ پورس، کے ابواب شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزیدیہ کہ سامراجیوں اور غاصبوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری ہماری اکیڈیمیا کو لینی چاہیے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ہمیں حقیقت کو قبول کرنا ہو گا۔ پورس کو اس کے عقیدے کی وجہ سے مسترد کرنے کے بجائے، ہمیں اسے ایک مقامی حکمران اور ہیرو کے طور پر خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے، جو غیر ملکی حملہ آور کے خلاف کھڑا تھا۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔