راجیش کمار
حکمران طبقہ مہنگائی کے ذریعے جہاں کروڑوں محنت کشوں کا معاشی قتل عام کر رہا ہے، وہاں فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کے ذریعے طلبہ سے تعلیم کا حق بھی تیزی سے چھین رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنی فیس وصول کرنے کے باوجود طلبہ کو انسانوں کے رہنے کے قابل ہاسٹل، خوراک اور ٹرانسپورٹ مہیا نہیں کی جارہی ہے۔ حکمران طبقے کے تعلیم دشمن رویے کے خلاف طلبہ تحریک سے خوفزدہ حکمران جبر، خوف اور تعصبات کے ذریعے طلبہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جامعات میں ہر مثبت سرگرمی پر پابندی عائد کر کے طلبہ کو مذہبی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر لڑایا جاتا ہے اور ان فسادات کے جواز کو استعمال کر کے جامعات کو فوجی چھاونیوں میں بدلنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ سلسلہ محض ان دو جامعات تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر جامعات کی بھی ایسی ہی کیفیت ہے۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں آئے روز طلبہ کے سلگتے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جن کو نااہل یونیورسٹی انتظامیہ حل کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی مشینری واردات کے تحت طلبا و طالبات پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ طلبہ اپنے مسائل پر ڈسکشن نہ کریں، کہیں مل بیٹھ کر باتیں نہ کریں، کہیں مل جل کر پڑھ اور سیکھ نہیں سکتے ہیں، کہیں گنگنا نہیں سکتے ہیں، کوئی سیاسی سرگرمی نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر کبھی کبھار ٹیچرز اپنی کلاس باہر گراؤنڈ میں شفٹ کرتا ہے تو پھر انتظامیہ کے کارندے پہنچ جاتے ہیں کہ یہاں پر کیا ہو رہا ہے۔
اگر طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ کے جبر کے خلاف اپنے بنیادی حقوق کے گرد احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یونیورسٹی سے نکالا جاتا ہے۔ طلبہ کو سہولیات مہیا کرنے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف طلبہ کو جیل کی طرز کے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کی بات کریں تو ہاسٹل ملنا ہی غنیمت ہے جس پر ایک پورے مافیا کا راج چل رہا ہے۔ اگر ہاسٹلز کی حالت کی بات کریں تو یہ کیفیت ہے کہ واش رومز گندگی اور غلاظت کا ڈھیر ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کا کہنا ہے کہ” پچھلے دو سالوں سے فیسوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہاسٹل کی فیس ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی نسبت زیادہ وصول کی جا رہی ہے۔ ہاسٹلوں میں ملنے والی سہولیات و ضروریات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ واشرومز جیسی بنیادی سہولت وہ بھی یونیورسٹی اور ہاسٹلوں میں مہیا نہیں کی جا رہیں۔ اس کے باوجود بھی طلبہ سے پوری فیس وصول کی جا رہی ہے۔ طلبہ کی تعداد کے تناسب سے ہاسٹلوں کی کمی ہے۔دستیاب ہاسٹلز بھی گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہے ہیں جس سے روم تک بدبو اور حبث پھیل رہی ہے۔ میس کا کھانا نہ کھانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی سہولیات میں جہاں مسلسل جدت لائی جا رہی ہے وہاں اس یونیورسٹی میں انٹرنیٹ ایک وقتی جگاڑ معلوم ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے گراؤنڈ اور ہاسٹلز کی صفائی ستھرائی کا معیار بھی راولپنڈی کی سڑکوں، گلیوں اور مسافر خانوں سے ملتا جلتا ہی ہے۔ آج کے تعلیمی ادارے بھی جیل خانوں اور پاگل خانوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ہاسٹلوں اور یونیورسٹی میں بجلی ہونے کے باوجود بھی بجلی دستیاب نہیں ہوتی جو گرمیوں میں جہنم کے عذاب سے کم اذیت نہیں ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی حالات پر غور کریں جو ایڈمن آفیس میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کے لیے زندگی کی ساری عیاشیاں اور سہولیات موجود ہیں۔ یونیورسٹی میں کوئی ایسا منصوبہ بندی کے مطابق ڈھابے/ ہٹس موجود نہیں ہیں جس پر طلبہ سکون سے مل بیٹھ کر چائے پی سکیں اور کچھ لمحات گزار سکیں، جو موجود ہیں اس پر ہر وقت نہ ختم ہونے والی قطار لگی ہوئی ہوتی ہے جیسے غلاموں کو سارے دن کی مشقت کے بعد روٹی کے انتظار کے لیے لمبی قطار میں کھڑا کر دیا گیا ہو۔ ڈھابوں / ہٹس پر طلبہ کو کھانے پینے کے لحاظ سے کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ جو سہولیات ہیں وہ بھی کاروباری مافیا کے کنٹرول میں ہیں وہ جب چاہیں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ مہنگائی نے پہلے ہی طلبہ کی زندگیوں کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کے عذاب نے طلبہ کی مسکراہٹ تک چھین لی ہے۔ انسانوں کا اس سر زمین پر رہنا تک مشکل کر دیا ہے۔
جب ماضی میں طلبہ سیاست ہوتی تھی تو اس وقت تعلیمی اداروں میں بیروزگاری، بھوک، لاعلاجی، قلت اور مہنگائی کو قابو پانے کہ لیے طلبا و طالبات مختلف یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا کرتے تھے۔ لیکن آج احتجاج کرنا تو طلبہ کے لیے غیر ضروری سرگرمی سمجھا جاتا ہے۔ آج طلبہ سیاست تو یونیورسٹی انتظامیہ کی کاسہ لیسی، خوشامد اور رضامندی حاصل کرنے کا اوزار بن کر رہ گئی ہے۔ اسلامک یونیورسٹی میں طلبہ کے لیے کھیلوں جیسی صحت مند سرگرمی کے لیے عہدِ نو کے تقاضوں کے مطابق انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی اندر کی سڑکوں پر بھی پتھر نکل آئے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے اس وقت گیٹ نمبر تین کی طرف کوئی بس نہیں جاتی ہے، کیچڑ کا بڑا نالا رواں دواں ہوتا ہے جس کے اوپر سے موٹر سائیکل، کاریں اور پیدل طلبہ گزر کر آ رہے ہوتے ہیں۔
اسلامک یونیورسٹی میں لمبے عرصے سے کوئی نئی بسیں نہیں خریدی گئی ہیں۔ ماضی کی جو موجود ہیں وہ بھی چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہر روز کلاس سے بھاگ بھاگ کر بس تک پہنچنا ہوتا ہے تاکہ کوئی بیٹھنے کے لیے سیٹ مل جائے لیکن بس پہلے ہی رش سے فل ہو جاتی ہے پھر مجبوراً بس کے گیٹ پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اتنا رش ہوتا ہے جیسے بھیڑ بکریوں کو شام ہوتے ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ آئے روز ان مردہ بسوں میں سیٹ کے لیے لڑائی جھگڑے ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد، راولپنڈی، مری، واھ کینٹ، ٹیکسلا کے دور دراز شہروں اور علاقوں سے طلبا و طالبات کو چار چار پانچ پانچ گھنٹے کھڑا ہوکر سفر کرنا پڑتا ہے۔ اسلام آباد اور پنڈی کے سڑکوں پر طلبہ کے حادثے معمول بن چکے ہیں۔
تعلیم کے نام پر حکمران طبقہ طلبہ کے ذہنوں میں رجعتی نصاب اور منفی سرگرمیوں کے ذریعے اپنی گلی سڑی شخصیت پرستی، انا پرستی اور مقابلہ بازی کی نفسیاتی ہجمنی کے جھنڈے گاڑھنے اور رجعتی ثقافت اور غلاظت سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نیم پیٹی بورژوا رویوں اور خیالاتوں کو غریب عوام اور طلبہ کے ذہنوں پر تھوپتا ہے تاکہ غریب عوام اور طلبہ اپنے حقیقی مسائل اور معاملات زندگی کا سچا علم و ادراک اور پختہ احساس و شعور حاصل نہ کریں۔ جب طلبہ کو یقیناً سچا علم و ادراک اور پختہ احساس و شعور حاصل ہو گیا تو پھر نہ رہے گا یہ تعفن، گھٹن اور حبث زدہ نظام، نہ رہے گی یہ بحران زدہ ریاست، نہ رہیں گے یہ مظلوم و محکوم انسانوں کے زخموں اور تکلیفوں کو نیلام کرنے والے۔ محکوم انسانوں کا خون نچوڑنے والوں کو محنت کش عوام اور طلبہ جلا کر بھسم کر دیں گے۔
طلبہ کو یونیورسٹی اتنظامیہ یا ریاستی انتظامیہ کے جبر کے ذریعے کنٹرول کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسائل طلبہ کو خوف کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے بغاوت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی میں بھی بس سے گر کر ایک طالبہ کے واقع کے گرد طالبات کی منظم جرات اور یکجتی نے اس یونیورسٹی کے آمروں کے پاؤں تلے زمین نکال دی تھی جسے بعد میں انتظامیہ نے زہریلے ہتھکنڈے استعمال کر کے اُس تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش کی، جس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔ لیکن طلبہ کی جرات مند اور دلیرانہ جدوجہد نے طلبہ کو اپنی طاقت کا احساس دلایا ہے جس طاقت کو رجعتی سیاہ فاشسٹ غنڈوں کے مسخروں نے انتظامیہ سے مذاکرات کر کے ان منافقانہ کرداروں اور سوچ رکھنے والوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ وہ گزری ہوئی جاگتی آنکھوں کی تاریخ ہے آج بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے۔ آج بھی ان طالبات کی بے خوف تحریک نے طلبا و طالبات کے ذہنوں میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جو مزید طلبہ تحریکوں کو جنم دیں گے۔
دور دراز علاقوں کشمیر کے پہاڑوں، گلگت، بلوچستان کے پتھروں، سندھ کے راجستانی صحراؤں، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سلسلوں سے آئے ہوئے طلبہ کے تعلیم و تربیت کے مسائل اور ضروریات زندگی کے معاملات مشترکہ ہیں۔ اگر یونیورسٹی کی طرف سے فیسوں، بسوں اور ہاسٹلوں کی فیسوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو پھر اس کے اثرات تمام تر طلبہ کی زندگیوں پر پڑتے ہیں۔ مسائل اور زندگی کی ضروریات مشترکہ ہیں تو پھر لڑائی اکھٹے ہوکر لڑنے کی ضرورت ہے۔
کہاں تک جاؤ گے تم، کہاں تک ہم جائیں گے
دیکھتے ہیں کہ ان چراغوں میں اجالے کہاں تک ہیں