پاکستان

عمران خان پانچ سال نکالتا نظر نہیں آتا

فاروق طارق

عمران خان اقتدارمیں اپنے پانچ سال پورے کرتا نظر نہیں آتا۔ یہ کسی کی خواہش کو پورا کرنے یا کسی سیاسی مخالف کو خوش کرنے لئے تحریر نہیں کیا جا رہا بلکہ تمام سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے۔

عمران خان کی حکومت ایک سال بعد تقریباً ہر میدان میں ایک ناکام حکومت کے طور پر ابھری ہے، خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ، ناکامی ان کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔ جو بھی، جیسی بھی امیدیں سماج کے کچھ حصوں کو اس سے وابستہ تھیں اب ٹوٹتی بکھرتی نظر آ رہی ہیں۔

معاشرے میں عمومی طور پر ایک غیر یقینی سی کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے اور مستقبل تاریکی میں ڈوبتا اور لڑکھڑاتا نظر آتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقات کا یہ تازہ ترین تحفہ جس تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس کا ”چور ڈاکو، لٹیرے، بدعنوانی کو ختم کر کے رہوں گا“ والا بیانیہ تو اب ان حلقوں میں بھی طنز کے تیر کا سامنا کر رہا ہے جو اس کے مداحوں میں شمار ہوتے تھے۔

عمران خان کی اپوزیشن میں رہتے ہوئے 20 سالوں کے دوران کی جانے والی شایدہی کوئی ایسی تقریر ہو جواب اپنے قول وفعل کے تضاد سے بے نقاب نہ ہوئی ہو۔ جو آج اس کے اقدامات ہیں ان بارے ماضی میں ان کے فرمودات پر مبنی تقاریر آج کسی کو حیرت میں نہیں ڈالتیں اور نہ ہی کسی کو غصے میں لاتی ہیں، کوئی ایک ہو تو ایسا ہو۔

اس ایک سال میں سیاسی انتقام کے اقدامات اور جابرانہ ریاستی ہتھکنڈے اپنے عروج پر نظر آئے اور نیب جیسا ادارہ سیاسی مخالفین کو کارنر کرنے کے لئے جس طرح استعمال ہوا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

عدلیہ کے بعض ججوں کی جو ویڈیوز باہر آئی ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کن کے اشاروں پر کام کرتے رہے ہیں۔ اداروں کو مضبوط کرنے کے نعرے والوں نے ان اداروں کی جو درگت بنائی ہے وہ شاید کسی اور سویلین دور میں نظر نہ آئی ہو۔

جمہوری جگہ تنگ ہوئی ہے اور آمرانہ روشوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سماجی، سیاسی و طبقاتی تحریکوں کو جبر سے دبانے کا رواج بڑھ رہاہے۔

معاشی طور پر نیو لبرل ایجنڈے کا اطلاق تیزی سے ٹھونسنے کی کوششوں نے مہنگائی کا ایک پہاڑ عوام کے ناتواں کندھوں پر لاد دیا ہے۔ آئی ایم ایف کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے ان کی جانب سے عائد شرائط پیش کرنے سے قبل ہی ان پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔ معیشت کی بحرانی کیفیتوں کا ذکر اب تو تمام مقامی اور عالمی ادارے کر رہے ہیں۔ یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قرضہ کدھر سے آ رہا ہے مگر جا کدھر رہا ہے اس پر پردہ پوشی ہے۔

عالمی سامراجی اداروں سے ان کے ذہین ترین افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا تھا کہ ان اداروں کی شرائط کو پوری وفاداری اور ایمانداری سے پورا کرتے ہوئے جو بھی رقم اکٹھی کی جائے اسے ملک سے باہر ان اداروں کے قرضہ جات کی واپسی کے نام پر ادا کر دی جائے۔ اور اس کام کے ماہر لوگ اب وزیر خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے طور پر موجود ہیں۔

تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں افراد کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ ٹیکس نیٹ ورک بڑھانے کے نام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔

عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کا درست لقب اب ہاؤس ہولڈ لفظ ہے۔ جس ڈپٹی سپیکر نے قومی اسمبلی میں اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگائی تھی کہ سب منتخب ہو کر آئے ہیں اسے 27 ستمبر  2019ء کو الیکشن کمیشن نے اسمبلی سے باھر کر دیا ہے کہ اس نے پچاس فیصد سے زیادہ جعلی ووٹ ڈلوائے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات کو شاید پاکستانی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ دھاندلی زدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

دھاندلی زدہ انتخابات کے سہارے اقتدار میں آنے کے بعد جو بھی پلان عمران خان کو لانے والوں کے ذہن میں ہو گا وہ آج کامیابی سے آگے بڑھتا نظر نہیں آتا۔ وہ بھی آج ایک مخمصے میں ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔

عمران خان کا اقتدار مذہبی جنونیوں کے پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ تعلیمی اداروں میں مذہبی کلچر کو فروغ دینے کے مسلسل اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ طالبان کو ختم کرنے کی بجائے ان سے مذاکرات کرنے کی حکمت عملی پر عمل درآمد جاری ہے۔

عمران خان حکومت کے ایک سال کے دوران پختون تحفظ موومنٹ کے ابھار نے ریاست کی چولوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس سے نپٹنے کے جو بھی ذریعے اختیار کئے گئے ان سے ان کی مقبولیت میں کمی نظر نہیں آ رہی۔ یہ اظہار ہے مستقبل میں ایسی ہی تحریکوں کے مزید ابھرنے کا۔ آج بھی 1968-69ء جیسی عوامی ریڈیکل تحریکوں کے ابھار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل کمی اس کے اقتدار کے دنوں کو مسلسل کم کر رہی ہے۔ جابرانہ معاشی اور سماجی اقدامات ایک مقبول شخصیت کے ساتھ کرنے کی حکمت عملی ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں کیا ہو سکتا ہے یقینی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسا زیادہ عرصہ جاری رہنا ممکن نہیں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔