فاروق سلہریا
پوسٹ ماڈرن ازم نے دو کام بہت کامیابی سے کئے۔ ایک یہ کہ اپنی تمام تر مارکس دشمنی کے باوجود پوسٹ ماڈرنسٹ پروفیسر حضرات خود کو ترقی پسند بنا کر پیش کرتے رہے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اصل ترقی پسند تو ہیں ہی وہ لوگ۔ یوں سٹیٹس کو کے یہ سب سے بڑے حامی خود کو ایک ”تبدیلی“ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
دوم، یونیورسٹی کے محفوظ کیمپسز میں بیٹھ کر کام کرنے والے ان”انقلابیوں“ کا کام فقط یہ ہے کہ بس بیانیے کا تجزیہ کرتے رہو۔ یہ کاغذوں ہی کاغذوں میں دنیا فتح کر لیتے ہیں۔
سوم، ان کا کام ہے نظریاتی کنفیوژن پھیلاؤ۔ معلوم نہیں کنفیوژن پھیلانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کنفیوژ رہتے ہیں یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں لیکن حالت انکی یہ ہے اگر ان سے پوچھ لو کہ پوسٹ ماڈرن ازم ہے کیا، اس بنیادی سی بات کا یہ جواب نہیں دیں سکیں گے۔
جب پی ٹی آئی کو دیکھتا ہوں تو مجھے مغربی یونیورسٹیوں کے پوسٹ ماڈرنسٹ پروفیسر یاد آتے ہیں۔ کبھی پوسٹ ماڈرنسٹ پروفیسروں کی باتین سنتا ہوں تو مجھے پی ٹی آئی یاد آنے لگتی ہے۔
اس کی تازہ مثال ہے پی ٹی آئی والوں کا شور شرابہ جو عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد شروع ہوا۔
مودی سرکار نے آرٹیکل 370کا خاتمہ کر دیا۔ تقریباًدو مہینے ہو نے والے ہیں، کشمیر ایک جیل بنا ہوا ہے۔ دن رات بھارت کے خلاف بڑھک بازی کرنے والی حکومت ”اِب کے مار“ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ذرا بیانیہ ملاحظہ فرمائیے: اگر بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا تو دندان شکن جواب دیں گے۔
بھائی وہ کیوں کریں گے یہ حملہ؟ آپ دونوں ممالک کی اشرافیہ نے تاشقند معاہدے کے بعد سے نہیں تو کم از کم تاشقند معاہدے کے وقت سے طے کر رکھا ہے کہ کنٹرول لائن پر’سٹیٹس کو‘ ہی مسئلہ کشمیر کا اصل حل ہے۔ پی ٹی آئی والو!یہ بتاؤ کہ آرٹیکل 370 کا کیا کرنا ہے؟ مگر اس شق کی بات نہیں کریں گے۔ جنگی جنون پھیلانے اور جنگ کا ماحول بنائے رکھنے کے لئے عمران خان ہوں یا شاہ محمود قریشی ”اِ ب کے مار“ والی گردان جاری رکھیں گے۔
سیدھی سی بات ہے یہ لوگ آرٹیکل 370 پر نہ کچھ کر سکتے ہیں، نہ کریں گے۔ بس وقت گزرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
ان کی سب سے شرمناک ناکامی سفارتی سطح پر ہے۔ چین سے لیکر”امہ“تک، کسی نے اسلام آباد کا ساتھ نہیں دیا۔ کچھ عرب ”بھائیوں“ نے تو آرٹیکل 370 کے زخم پر نمک چھڑکنے کے لئے مودی کو بلا کر اپنے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز دیے جبکہ سب عالمی”نکوں“ کے بڑے ابا، ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کے ساتھ مل کر امریکہ میں جلسہ کیا۔ عمران خان بھی اس دوران امریکہ میں موجود تھے۔ انہیں مقدس وائٹ ہاوس کی پوتر یاترا بھی نصیب نہ ہو سکی۔
جنگل کے بادشاہ بن جانے والے معروف بندر والی دوڑ دھوپ کے ساتھ ساتھ سفارتی منافقتوں کا پردہ بھی چاک ہونے لگا ہے۔ روہنگیا، وہیگر اور اہل یمن کی بابت اسلام آباد کی امہ دوستی سب پر آشکار ہونے لگی ہے۔ پاکستان کے اپنے شہری اس دوغلے پن پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ان سب سیاسی و سفارتی ناکامیوں کا جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو تقریر کا شور مچا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ مودی اور ہندوستان کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا گیا ہے۔
پوری دنیا؟واقعی؟
کیا کوئی بتائے گا برصغیر سے باہر کس ملک میں عمران خان کی تقریر پر بحث ہوئی؟ کس ملک نے اپنا موقف بدلا؟کس ملک نے ہندوستان سے منہ موڑ کر پاکستان کے گلے میں باہیں ڈال دیں؟ کشمیر پر بھارتی ظلم و ستم کے خلاف کس ملک نے بھارتی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا؟
پوری دنیا؟
سال کے ان دنوں میں اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی سے ہر ملک کا سربراہ خطاب کر رہا ہوتا ہے اور اس موقع پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسے کیا کہا جائے کہ جس طرح عمران خان کی تقریر پر پاکستانی میڈیا اور پی ٹی آئی کے حامی رطب السان ہیں، اسی طرح بھارتی میڈیا اور بی جے پی والے مودی کی تقریر پر واری جا رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جس طرح پاکستان کی ہر حکومت ہر سال جون کے مہینے میں ایسا شاندار بجٹ پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہے جس میں غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا، اسی طرح ہر سال پاکستان کے ہر وزیرِ اعظم (مارشل لا ادوار میں ”صدورِ مملکت“) کی تقریر بہت شاندار ہوتی ہے۔
قصہ مختصر، وہی پرانی گھسی پٹی غزل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار ”تاریخی تقریر“ کوک سٹوڈیو سے نشر کی گئی ہے۔ اضافی شور اس لئے بھی ہے کہ جو کام حقیقت میں نہیں ہو سکتا، اسے بیانیے کی حد تک تو کر لو۔ وہی پوسٹ ماڈرن ازم والا طریقہ کار۔
آخر میں مختصراً تقریر کی حقیقت بھی جانچ لیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ عمران خان نے وقت کی پابندی نہیں کی۔ یہ ایک انتہائی غیر جمہوری اور غیر سفارتی حرکت تھی لیکن عمران خان یہ دنیا کے لئے نہیں کر رہے تھے (کس کو پڑی ہے کہ وہ ان کی تقریر پر وقت برباد کرے)، وہ پاکستان میں اپنے حامیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر ملک کا سربراہ عموماًیہی کر رہا ہے۔ سپر پاورز کی بات الگ ہے۔
دوم، عمران خان اور انکی حکومت کے تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی انہیں سنجیدہ نہیں لے سکتا۔
گلوبل وارمنگ کی ہی بات لیجئے۔ جو شخص خود جنگل اجاڑ کر تین سو کنال کا گھر بنا کر رہ رہا ہو، وہ کس منہ سے ماحولیات کی بات کر سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اس بات پر پی ٹی آئی کے وہ حامی تالیاں پیٹ رہے ہیں جو خود ایک ایک کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔
اسلاموفوبیا بلا شبہ اس وقت ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے مہاتیر محمد، عمران خان اور طیب اردگان کو اپنے اپنے ملکوں میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال بہتر بنانا ہو گی۔
رہی بات کشمیر کی تو اسے اسلام کا مسئلہ بنا کر عمران خان نے خود کو ہی مشکل میں ڈالا۔ بات کشمیری مسلمانوں کی ہو گی تو پھر یمن، کردستان، چین، مراکش اور برما تک جائے گی۔
بات یہ ہے جس طرح پوسٹ ماڈرن ازم کے غبارے سے ہوا اب تقریباًنکل چکی ہے، اسی طرح پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا زیادہ دیر ٹکنے والی نہیں۔ ریاستی ڈھانچوں کی طاقت استعمال میں لا کر بھی لوگوں کو بہت لمبا عرصہ بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔