اویس قرنی
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل آئس برگ کی وہ چوٹی ہے جس کو کریدنے پر تعلیمی اداروں کے چوکیداروں سے لے کر ٹاؤٹ قسم کے طلبہ، ہاسٹل وارڈنز، لیکچررز، ایڈمنز، ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈز، وائس چانسلرز اور علاقائی ریاستی انتظامیہ، پولیس، خفیہ ادارے حتیٰ کہ اعلیٰ و مقدس ایوانوں کے منتخب نمائندے اس وحشت میں لتھڑے ہوئے ملیں گے۔ یہ ایسے گینگ ہیں جوکئی دہائیوں سے شتر بے مہار آزادی کے ساتھ طلبہ و اساتذہ خصوصاً طالبات کو جسمانی و نفسیاتی طور پر مجروح کیے جا رہے ہیں۔ یہ نیٹ ورکس صرف تعلیمی اداروں میں ہراسانی تک محدود نہیں ہیں بلکہ بلیک میلنگ کی بنیاد پرطالبات کی مجبوریوں کو ملک کے اندر و باہر سر بازار نیلام کرتے ہیں۔ یہ اتنا دیوہیکل انفراسٹرکچر ہے کہ جس کے بے نقاب ہونے پر ریاست کی بنیادوں میں بھونچال پیدا ہو جائے اور یہ معاشرہ اپنے آپ سے آنکھیں نہ ملا سکے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس وحشت کی سماجی بنیادیں کیسے ہوئیں۔ طلبہ یونین پر پابندی کا مقصد محض سیاسی نرسریوں کا خاتمہ نہیں تھا۔ یقینا یہ بھی حکمران اشرافیہ کا ایک اہم ہدف تھا لیکن محض یہی نہیں ہوا۔ طلبہ سیاست پر پابندی کی وجہ سے سماج کی ساری بنتر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ خاص طور پر تعلیمی اداروں میں طلبہ کے تمام تر احساسات اور امنگوں کی دھجیاں اڑ ا دی گئیں۔ جس کے پاس بھی رتی برابر اختیار آیا اس نے اپنے ماتحتوں کا اس حد تک استحصال کیا کہ جتنا کیا جا سکتا تھا۔ یہ سلسلہ نیچے سے لے کر اوپر تک ایک جیسا ہے اور شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ذہنی کیفیت اور سماج کے عمومی رویوں اور رحجانات کا ادراک کیے بغیر ایسے واقعات کی سنگینی کو سمجھنا دشوار ہے۔
خواتین کا جنسی استحصال آج کا مظہر نہیں ہے لیکن سرمایہ داری کے زوال کے ساتھ اس میں کہیں زیادہ شدت آتی گئی ہے۔ پاکستان وہ معاشرہ ہے جس میں محض تالیاں بجانے کی ایک ویڈیو پانچ معصوم لڑکیوں کی جانیں نگل گئی۔ سانحہ کوہستان آج بھی پاکستان کے نظام عدل کا منہ چڑا رہا ہے۔ پوری ریاست ان فرسودہ سماجی روایات کے آگے بے بس کھڑی رہی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں قتل جیسے سنگین ترین جرم کو ”غیرت کے نام پر قتل“ کی شکل میں معمول بنادیا جائے اور مجرمان ببانگ دہل یہ اقرا ر کرتے ہوں کہ وہ پشیمان نہیں اور پھر موقع ملا تو پھر یہی کریں گے‘ وہاں یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکیوں کے لیے کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور پھر خصوصاً سماج کے پچھڑے علاقوں اور پرتوں سے وابستہ خواتین تعلیم کے حصول کے لیے شہروں کا رخ کرتی ہیں تو ان کے لیے قدم قدم پر ایک وحشت منتظر ہوتی ہے۔ ان کو داخلے سے لے کر ہاسٹل کی سیٹ اور بس کے پوائنٹ کے حصول تک کن کن مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا ہو گا۔ قیاس سے بڑھ کر اس کا درست اداک صرف وہی کر سکتی ہیں۔ یہ بیمار معاشرہ کہ جوسات سالہ بچوں تک کو نہ بخشے اور کوئی خاتون سوشل میڈیا پر مقبولیت کے لیے مینار پاکستان لاہور یا فیصل مسجد اسلام آباد میں آئے تو اسے دن دیہاڑے نوچ ڈالا جائے وہاں پر ان خواتین کی حصول تعلیم کی جدوجہد نہایت جرات مندانہ اور قابل ستائش اقدام ہے۔
طلبہ سیاست پر پابندی اور تعلیمی اداروں میں اختیارات کی بیہودہ تقسیم کی وجہ سے قلم کے زور پر پہلے طلبا و طالبات کو توڑا جاتا ہے۔ ان کو مسلسل گھائل کیا جاتا ہے۔ مسلسل فیل کرنے یا نمبروں اور حاضریوں میں جعلی کمی کے ذریعے ان کے گرد گھیرا مسلسل تنگ کیا جاتا ہے۔ اور اس نہج پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جہاں ایک طرف سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چار دیواری کی قید ہے تو دوسری جانب ان ذلتوں کا گھن چکر ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ وارداتیں نہیں بلکہ منظم و مربوط طریقہ کار ہے۔ اور اس کا زیادہ تر شکار غریب، نسبتاً پسماندہ اور دور دراز سے آنے والی طالبات ہوتی ہیں۔ اس عمل سے تعلیمی اداروں کا دیگر عملہ، ہاسٹل وارڈن، ایڈمن اور استانیاں بھی نہیں بچ سکتیں کہ ایک طرف مسلسل مہنگائی کا سامنا ہے تو دوسری جانب بیروزگاری کا سمندر۔ کنٹریکٹ اور کم تنخواہوں پرملازمت کرنے والے ان افراد کو بھی اسی طرح چنگل میں جکڑا جاتا ہے جس طرح طالبات کو۔ یہاں تک کہ بلیک میلنگ کے ذریعے ان سے ایجنٹی تک کا کام لیا جاتا ہے۔ ضیا دور کے بعد جس انداز میں منشیات کو تعلیمی اداروں میں ٹھونسا گیاوہ بھی ان نیٹ ورکس کا اہم ترین عنصر بن گیا ہے۔ جس کی بدولت یہ گھن چکر یونیورسٹیوں اور غریب طلبہ تک محدود نہیں رہا بلکہ کالجوں‘ حتیٰ کہ سکولوں تک کے خوشحال گھرانوں سے وابستہ بچے بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ اور اب یہ ایک بڑی اور منظم انڈسٹری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کی موجودگی نے اس ساری واردات کو کہیں زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ جس ملک میں طاقتور ریاستی و سیاسی حلقوں کی چپقلشوں میں جنسی ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کرنا معمول بن جائے اور ٹی وی چینلوں کا یہ روزانہ کا موضوع بحث ہو وہاں یہ بے بس طلبہ کیسے آواز بلند کریں۔ یہی خوف ان کو اس دلدل میں دھنساتا چلا جاتا ہے۔ ذہنی مرض معمول بن جاتا ہے۔ پھر تھک ہار کر پھندہ رہ جاتا ہے جس میں ان کو اپنی تکلیفوں کی نجات نظر آتی ہے۔ یہ وہ قتل ہیں جن کا مجرم مروجہ نظام ہے۔
لیکن پھر ہمیں ایسا واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد کے سماجی اثرات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ایسے واقعات کے بعد مذہبی جنونی و بنیاد پرست عناصر سے پراپیگنڈہ کروایا جاتا ہے۔ بالخصوص خواتین کی تعلیم اور نوکری اور ان کے پہناوے پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔ لڑکیوں کے والدین ان سے تعلیم چھڑوا کر گھر بٹھانے پر زور لگاتے ہیں۔ اور کئی بچیاں تعلیم کی روشنی سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ ویڈیوز لیک ہونے کی صورت میں جبر کی شکار بچیوں کے سر اوپر مسلسل تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ متاثرہ بچیوں کے خاندان والے ان کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ سماجی خوف سے کئی تو اپنی زندگیوں کا انت خود کرنے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ ایسے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ متاثرین کو اعتماد دینے کے لیے ملک گیر سطح کی کمپئین ترقی پسند طلبہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور سکولوں کی سطح تک ہراسانی سے نپٹنے کی آگاہی اور سیکس ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنے کی جدوجہد اہمیت کی حامل ہے۔
عزتیں پامال کرنے والے اعجاز شاہ کی آج کی عدالتی پیشی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کیس کا بھی وہی انجام ہو گا جس طرح ماضی کے سینکڑوں کیسوں کا ہوتا رہا ہے۔ جس طرح نمرتا چندانی اور نوشین کاظمی کے کیسوں میں ہوا یا پھر جس طرح بلوچستان یونیورسٹی کا شرمناک سکینڈل تھا جس میں ایف سی اورانتظامیہ کی مل بھگت میں خواتین ہاسٹل کے باتھ روموں میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے اور آج تک اس کی تفتیش منظر عام پر نہ آ سکی۔
اس لیے سب سے پہلے ان واقعات کی آزانہ تحقیقات ہوں جس میں متاثرین کی پہچان کی مکمل راز داری کے ساتھ حقائق اور مجرمان کو عوام الناس کے سامنے پیش کیا جائے۔ شفاف تحقیقات کے لیے لازم ہے کہ اس سکینڈل سے جڑے ہر فرد کو فوری معطل کیا جائے تاکہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہوں۔ پھر کامریڈ منو بھائی کے الفاظ میں ”ساڈے اس مقدمے دے وِچ‘ سانوں وی تے گواہ بنا لؤ“ یعنی اس تمام تر تفتیش اور فیصلہ سازی میں طلبہ نمائندگان کو براۂ راست شامل کیا جائے جو وحشت کے اولین شکار ہیں۔ حالیہ واقعہ میں ملوث ہر فرد کو عبرتناک سزا دینی چاہیے لیکن اس حقیقت کا بھی ادراک ضروری ہے کہ محض افراد کی سزا سے ایسے واقعات کا قلع قمع ممکن نہیں۔ شاید اس معاملے کو انفرادی شکل دے کر کچھ افراد کی بلی بھی دے دی جائے لیکن یہ نظام ہی ایسا ہے کہ ایک جائے گا تو کئی اور اس سے زیادہ وحشی و ذہنی مریض مسلط کر دیے جائیں گے۔ اس وحشت کا انت نظام کی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے تعلیمی اداروں کی ہر سطح پر طلبہ کی نمائندگی کی حامل بااختیار ہراسانی کمیٹیوں کی تشکیل لازم ہے جو طلبہ یونین بحالی کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہیں۔ ہر ترقی پسند اور انقلابی نوجوان کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ اس لڑائی کو فیصلہ کن حد تک لڑتے ہوئے کروڑوں گھائل روحوں کا حساب اس نظامِ ذلت کو زمین برد کر کے لے۔
ہر وحشت کی طرح اس کا بھی انت ممکن ہے۔ اس منظم اور طاقتور مافیا کو طلبہ کی منظم جدوجہد سے توڑا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں کے ترقی پسند طلبہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یکجا ہو کر اس درندگی کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ ہر قسم کی ہراسانی کو بے نقاب کیا جائے۔ ہراسانی صرف جسمانی نہیں ذہنی بھی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز ندیم سہیل جیسوں کے خلاف بھی لڑنا ہو گا جو محض عورت آزادی مارچ میں شرکت کرنے پر طلبہ کو معطل کر کے اپنی فرعونیت دکھاتے ہیں اور مہینوں تذلیل کے بعد طلبہ سے معافی نامے لکھواتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں مل جل کر بیٹھے سماجی مسائل پر بحث کرنے والے طلبہ کو شوز کاز نوٹس جاری کرتے ہیں اور دھمکاتے ہیں۔ یہیں سے یہ لوگ بڑھتے بڑھتے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی آفیسر اعجاز شاہ بن جاتے ہیں۔ ان درندوں کوشروعات میں ہی نکیل ڈالنا لازمی ہے۔ جیسے گزشتہ مہینوں میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ نے جرات کا مظاہرہ کیا۔ ایسے پروفیسرز اور سپر وائزرز کی موقع پر سرزنش لازم ہے۔ اس ایڈمن اور ہاسٹل وارڈن کو بھی بے نقاب کرنا لازم ہے جو مجبوریوں کا دھندہ کروانا چاہ رہا ہو۔ لیکن اس سب کے لیے اس خوف پر قابو لازم ہے جو تادیبی کاروائیوں کے امکان سے پیدا ہوتا ہے۔ اس خوف پر فتح صرف طلبہ کی جرات مندانہ یکجہتی اور جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔