خبریں/تبصرے

عرب حکمران: مغرب میں لبرل یونیورسٹیوں کو گرانٹس، مسلم دنیا میں مدرسوں کو چندے

فاروق سلہریا

دس سال قبل میں نے لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹدیز (SOAS) میں داخلہ لیا۔ پہلے چند دن تو ہر نئے طالب علم کی طرح مجھے ارد گرد کا ہوش ہی نہیں تھا۔ کچھ دن کے بعد اسکول کی عمارت سے مانوسیت بڑھنے لگی۔ ایک روز میں اسکول کی مین بلڈنگ میں استقبالیہ پر ایک دوست کا انتظار کر رہا تھا۔ میری نظر سامنے ایک دیوار پر پڑی۔ وہاں لکڑی کا ایک تختہ نصب تھا جس میں اسکول کی جانب سے سعودی عرب کے سابق بادشاہ، شاہ فہد، کا اس بات پر شکریہ ادا کیا گیا تھا کہ انہوں نے 1995ء میں اسکول کو ایک ملین پونڈ کی گرانٹ دی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) یورپ کا سب سے زیادہ پروگرویسو تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا ہے [یہ واضح رہے کہ ہمیں اسکول کی کمیونٹی (اساتذہ، طلبہ، دیگر اسٹاف) اور اسکول کی اسٹیبلشمنٹ میں فرق کرنے کی ضرورت ہے]۔

مقصد یہاں یہ بتانا تھا کہ جس سعودی عرب نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مغرب میں بھی مسلمانوں کے محلوں میں صرف مسجدیں اور مدرسے بنائے ہیں، وہی سعودی عرب یورپ کے سب سے زیادہ لبرل گردانی جانے والی یونیورسٹی کو چندے دے رہا ہے۔

لندن میں چند سال گزارنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) ہی نہیں آکسفورڈ سے لے کر لندن اسکول آف اکنامکس تک، تیل کی دولت سے سب یونیورسٹیاں مستفید ہو رہی ہیں۔

لندن اسکول آف اکنامکس کا کیس تو اس لئے بھی دلچسپ بن گیا کہ جب عرب بہار لیبیا پہنچی تو پتہ چلا کہ دنیا کے اس مشہور و معروف تعلیمی ادارے نے معمر قذافی سے پندرہ لاکھ پونڈ کی گرانٹ لی تھی۔ جب اس اسکول کے طلبہ کو پتہ چلا تو انہوں نے دھرنا دے دیا۔ اس احتجاج کے بعد انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ لیبیا سے لیے گئے پیسے واپس کر دیں گے۔ یاد رہے معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی کی تھی۔

اتفاق سے ایک دن مائیکل برلیہہ کی کتاب’Blood & Rage‘ کے صفحہ 491 پر نظر ٹک گئی۔ لکھا تھا کہ خلیجی حکمران 200 ملین پونڈ سے زیادہ کی گرانٹس برطانوی یونیورسٹیوں کو دے چکے ہیں۔

مطلب گوروں کے لئے سواس (SOAS) اور ایل ایس ای (LSE)۔ اُمہ کے لئے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک!

بقول سہیل وڑائچ: کیا یہ کھلا تضاد نہیں!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔